95۔ پڑھ چکے احرار بس اپنی کتاب ِزندگی

کلام
محمود صفحہ155

95۔ پڑھ چکے احرار بس اپنی کتاب ِزندگی

پڑھ چکے احرار بس اپنی کتاب ِزندگی
ہو گیا پھٹ کر ہوا ان کا حبُا ب ِزندگی
لوٹنے نکلے تھےوہ امن و سکونِ بیکساں
خود انہی کے لٹ گئے حسن و شبا ب ِزندگی
دیکھ لینا ان کی امیدیں بنیں گی حسرتیں
اک پریشاں خواب نکلے گا یہ خوا ب ِزندگی
فتنہ و افساد و سبّ وشتم و ہزل وابتذال
اس جماعت کا ہے یہ لُبِّ لبا ب ِزندگی
پڑ رہی ہیں انگلیاں اربابِ حلّ وعقد
کی
بج رہا ہے اس طرح ان کا رُبا ب ِزندگی
کیا خبر ان کو ہے کیا جام ِ شہادت کا
مزا
دیکھ کر خوش ہورہے ہیں جو سرا ب ِزندگی
ہے حیاتِ شمع کا سب ماحصل سوزوگداز
اک دلِ پر خون ہے یہ اکتسا ب ِزندگی
دلبرا الزام تو دیتے ہیں چھپنے کا تجھے
اوڑھے بیٹھے ہیں مگر ہم خود نقا ب
ِزندگی
دستِ عزرائیل میں مخفی ہے سب رازِ حیات
موت کے پیالوں میں بٹتی ہے شرا ب ِزندگی
غفلتِ خوابِ حیاتِ عارضی کو دور کر
ہے تجھے گر خواہش ِ تعبیر ِ خوا ب
ِزندگی
اخبار الفضل جلد 23 ۔ 6ستمبر 1935ء

اپنا تبصرہ بھیجیں