71۔ دل مرا بے قرار رہتا ہے

کلام
محمود صفحہ120

71۔ دل مرا بے قرار رہتا ہے

دل مرا بے قرار رہتا ہے
سینہ میرا فگار رہتا ہے
نیک وبد کا نہیں  مجھے کچھ ہوش
سرمیں ہردم خمار رہتا ہے
تیرے عاشق کا کیا بتائیں حال
رات دن اشکبار رہتا ہے
اس کی شب کا نہ پوچھ تُو جس کا
دین بھی تاریک وتار رہتا ہے
دل مرا توڑتے ہو کیوں جانی
آپ کا اس میں پیار رہتا ہے
کیا نرالی یہ رسم ہےعاشق
دے کے دل بے قرار رہتا ہے
المدد! ورنہ لوگ سمجھیں گے
تیرا بندہ بھی خوار رہتا ہے
مجھ کو گندہ سمجھ کے مت دھتکار
قربِ گل میں ہی خا ر رہتا ہے
ہے دلِ سوختہ کی بھاپ طبیب
تُویہ سمجھا بخا ر رہتا ہے
وحشتِ عارضی ہے ورنہ حضور
کہیں بندہ فرا ر رہتا ہے
بابِ رحمت نہ بند کیجے گا
ایک امّیدوا ر رہتا ہے
اس کو بھی پھینک دیجئے گا کہیں
اک مٹھی غبا ر رہتا ہے
فکر میں جس کی گھل رہے ہیں ہم
ان کو ہم سے نقا ر رہتا ہے
برکتیں دینا گالیاں سننا
اب یہی کاروبا ر رہتا ہے
فربہ تن کس  طرح سے ہو محمود
رنج ِ وغم کا شکا ر رہتا ہے
اخبار الفضل جلد 12 ۔6جون 1925ء

اپنا تبصرہ بھیجیں