68۔ وہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا

کلام محمود صفحہ117

68۔ وہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا

اہل ِ پیغام ! یہ معلوم ہوا ہے مجھ
کو
بعض احباب ِ وفا کیش کی تحریروں سے
میرے آتے ہی اِدھرتم پہ کھلا ہے یہ
راز
تم بھی میدان ِ دلائل کے ہو رَن بیر
وں سے
تم میں وہ زور وہ طاقت ہے اگر چاہو
تو
چھلنی کر سکتے ہو تم پشتِ عدو تیر وں
سے
آزمائش کے لیے تم نے چنا ہے مجھ کو
پشت پرٹوٹے پڑے ہو مری شمشیر وں سے
مجھ کو کیا شکوہ ہو تم سے کہ مرے دشمن
ہو
تم یونہی کرتے چلے آئے ہو جب پیر وں
سے
حق تعالےٰ کی حفاظت میں ہوں میں یاد
رہے
وہ بچائے گا مجھے سارے خطا گیر وں سے
میری غیبت میں لگا لو جو لگانا ہو زور
تیر بھی پھینکو کرو حملے بھی شمشیر
وں سے
پھیر لو جتنی جماعت ہے مری بیعت میں
باندھ لو ساروں کو تم مکروں کی زنجیر
وں سے
پھر بھی مغلوب رہو گے مرے تا یوم البعث
ہے یہ تقدیر خداوندکی تقدیر وں سے
مانے والے مرے بڑھ کے رہیں گے تم سے
یہ قضاوہ ہے جو بدلے گی نہ تدبیر وں
سے
مجھ کو حاصل نہ اگر ہو تی خدا کی امداد
کب کے تم چھید چکے ہوتے مجھے تیر وں
سے
ایک تنکے سے بھی بدترتھی حقیقت میری
فضل نے اس کے بنایا مجھے شہتیر وں سے
تم بھی گر چاہتے ہوکچھ تو جھکو اس کی
طرف
فائدہ کیا تمھیں اس قسم کی تدبیر وں
سے
نفسِ طامع بھی کبھی دیکھتاہے روئے نجات
فتح ہوتے ہیں کبھی ملک بھی کف گیر وں
سے
تم مرے قتل کو نکلے تو ہو پر غور کرو!
شیشے کے ٹکڑوں کو نسبت بھلا کیا ہیر
وں سے
جن کی تائید میں مولیٰ ہو انھیں کس
کا ڈر
کبھی صیاد بھی ڈر سکتے ہیں نخچیر وں
سے
حضور نے یہ نظم 1924ءکے سفرِ یورپ کےدوران کہی تھی (ناشر)
اخبار الفضل جلد 12 ۔11ستمبر 1924ء

اپنا تبصرہ بھیجیں