
51۔ تری محبت میں میرے پیارے ہرا ک مصیبت اٹھائیں گے ہم
کلام
محمود صفحہ94۔95
محمود صفحہ94۔95
51۔تری
محبت میں میرے پیارے ہرا ک مصیبت اٹھائیں گے ہم
تری محبت میں میرے پیارے ہرا ک مصیبت
اٹھائیں گے ہم
اٹھائیں گے ہم
مگر نہ چھوڑیں گے تجھ کو ہر گز نہ تیرے
در پر سے جائیں گے ہم
در پر سے جائیں گے ہم
تری محبت کے جرم میں ہاں جو پیس بھی
ڈالے جائیں گے ہم
ڈالے جائیں گے ہم
تو اس کو جانیں گے عین راحت نہ دل میں
کچھ خیال لائیں گے ہم
کچھ خیال لائیں گے ہم
سنیں گے ہر گز نہ غیر کی ہم نہ اس کے
دھوکے میں آئیں گے ہم
دھوکے میں آئیں گے ہم
بس ایک تیرے حضور میں ہی سرِاطاعت جھکائیں
گے ہم
گے ہم
جو کوئی ٹھوکر بھی مار لے گا اس کو
سہہ لیں گے ہم خوشی سے
سہہ لیں گے ہم خوشی سے
کہیں گے اپنی سزا یہی تھی زباں پہ شکوہ
نہ لائیں گے ہم
نہ لائیں گے ہم
ہمارے حالِ خراب پر گو ہنسی انہیں آج آ رہی ہے
مگر کسی دن تمام دنیا کو ساتھ اپنے
رُلائیں گے ہم
رُلائیں گے ہم
ہوا ہے سارا زمانہ دشمن، ہیں اپنے بیگانے
خوں کے پیاسے
خوں کے پیاسے
جو تو نے بھی ہم سے بے رُخی کی تو پھر
تو بس مر ہی جائیں گے ہم
تو بس مر ہی جائیں گے ہم
یقیں دلاتے رہے ہیں دنیا کو تیری الفت
کا مدتوں سے
کا مدتوں سے
جو آج تو نے نہ کی رفاقت کسی کو کیا
منہ دکھائیں گے ہم
منہ دکھائیں گے ہم
پڑے ہیں پیچھے جو فلسفے کے انہیں خبر
کیاہے کہ عشق کیا ہے
کیاہے کہ عشق کیا ہے
مگر ہیں ہم رَہرَوِ طریقت ثمارِ الفت
ہی کھائیں گے ہم
ہی کھائیں گے ہم
سمجھتے کیا ہو کہ عشق کیا ہے یہ عشق
پیار و کٹھن بلا ہے
پیار و کٹھن بلا ہے
جو اس کی فرقت میں ہم پہ گذری کبھی
وہ قصہ سنائیں گے ہم
وہ قصہ سنائیں گے ہم
ہمیں نہیں عطر کی ضرورت کہ اس کی خوشبو
ہے چند روزہ
ہے چند روزہ
بوئے محبت سے اس کی اپنے دماغ و دل
کو بسائیں گے ہم
کو بسائیں گے ہم
ہمیں بھی ہے نسبتِ تلمذ کسی مسیحاؑ
نفس سے حاصل
نفس سے حاصل
ہوا ہے بے جان گو کہ مسلم مگر اب اس کو جِلائیں گے ہم
مٹا کے نقش و نگارِ دیں کو یونہی ہے
خوش دشمنِ حقیقت
خوش دشمنِ حقیقت
جو پھر کبھی بھی نہ مٹ سکے گااب ایسا
نقشہ بنائیں گے ہم
نقشہ بنائیں گے ہم
خدا نے ہے خضرِ رَہ بنایا ہمیں طریقِ
محمدؐی کا
محمدؐی کا
جو بھولے بھٹکے ہوئے ہیں ان کو صنم
سے لاکر ملائیں گے ہم
سے لاکر ملائیں گے ہم
ہماری ان خاکساریوں پر نہ کھائیں دھوکا
ہمارے دشمن
ہمارے دشمن
جو دیں کو ترچھی نظر سے دیکھا تو خاک
ان کی اُڑائیں گے ہم
ان کی اُڑائیں گے ہم
مٹا کے کفر و ضلال و بدعت کریں گے آثارِ
دیں کو تازہ
دیں کو تازہ
خدا نے چاہا تو کوئی دن میں ظفر کے پرچم اُڑائیں گے ہم
خبر بھی ہے کچھ تجھے او ناداں! کہ مردُمِ
چشمِ یار ہیں ہم
چشمِ یار ہیں ہم
اگر ہمیں کج نظر سے دیکھا تو تجھ پہ
بجلی گرائیں گے ہم
بجلی گرائیں گے ہم
وہ شہر جو کفر کا ہے مرکز ہے جس پہ
دینِ مسیح نازاں
دینِ مسیح نازاں
خدائے واحد کے نام پر اک اب اس میں
مسجد بنائیں گے ہم
مسجد بنائیں گے ہم
پھر اس کے مینار پر سے دنیا کو حق کی
جانب بلائیں گے ہم
جانب بلائیں گے ہم
کلامِ ربِ رحیم و رحماں ببانگِ بالا
سنائیں گے ہم
سنائیں گے ہم
اخبار الفضل جلد 7 ۔19ستمبر 1920ء