34۔ نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ79۔80

34۔ نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس

نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس
اِک عجب چھاؤں میں ہم بیٹھے رہے یار
کے پاس
اس کی ایک ایک نگہ دل پہ پڑی ایسی کہ
بس
عرض کرنے کو نہ تھا کچھ لبِ اظہار کے
پاس
یوں ہم آغوش ہوا مجھ سے کہ سب ٹوٹ گئے
جتنے بھی بت تھےصنم خانۂ  پِندار کے پاس
تم بھی اے کاش کبھی دیکھتےسنتے اس کو
آسماں کی ہے زباں یارِ طرحدار کے پاس
یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے
چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس
یونہی دیدار سے بھرتا رہےیہ کاسۂ دل
یونہی لاتا رہےمولا ہمیں سرکار کے پاس
پھر اسے سایۂ دیوار نے اٹھنے نہ دیا
آکے اک بار جو بیٹھا تیری دیوار کے
پاس
تجھ میں ایک ایسی کشش ہے کہ بقولِ غالبؔ
خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ  دستار کے پاس
تیرا سایۂ رہے سر پر تو کسی حشر کی
دھوپ
سرد پڑ جائے جو آئے بھی گنہگار کے پاس
تو اگر خوش ہے یہاں مجھ سے تو پھر حشر
کے دن
ایک تیری ہی شفاعت ہو گنہگار کے پاس
1992ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں