26۔ اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا

کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ68۔70

26۔ اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا
بھی تو گھر تھا

یہ نظم ١٩٩١ء میں قادیان کے سفر کے دوران کہی گئی اور جلسہ سالانہ قادیان کے موقع
پر پڑھی گئی۔
اپنے دیس میں ، اپنی بستی میں اک اپنا
بھی تو گھر تھا
جیسی سندر تھی وہ بستی ویسا وہ گھر
بھی سندر تھا
دیس بدیس لئے پھرتا ہوں اپنے دل میں
اس کی کتھائیں
میرے من میں آن بسی ہے تن من دھن جس
کے اندر تھا
سادہ اور غریب تھی جنتا ۔ لیکن نیک
نصیب تھی جنتا
فیض رساں عجیب تھی جنتا ۔ ہر بندہ بندہ
پرور تھا
سچے لوگ تھے ، سُچّی بستی ، کرموں والی
اُچّی بستی
جو اُونچا تھا، نیچا بھی تھا ، عرش
نشیں تھا، خاک بسر تھا
اس کی دھرتی تھی آکاشی ، اس کی پرجا
تھی پرکاشی
جس کی صدیاں تھیں متلاشی ، گلی گلی
کا وہ منظر تھا
کرتے تھے آ آ کے بسیرے ، پنکھ پکھیرو
شام سویرے
پھولوں اور پھلوں سے بوجھل ، بستاں
کا ایک ایک شجر تھا
اس کے سروں کا چرچا جا جا ، دیس بدیس
میں ڈنکا باجا
اس بستی کا پیتم راجا ، کرشن کنھیا
مرلی دھر تھا
چاروں اور بجی شہنائی بھجنوں نے اک
دھوم مچائی
رُت بھگوان ملن کی آئی ، پیتم کا درشن
گھر گھر تھا
گوتم بدھا بدھی لایا ، سب رشیوں نے
درس دکھایا
عیسیٰ اُترا مہدیؑ آیا ، جو سب نبیوں
کا مظہر تھا
مہدی کا دلدار محمدؐ ، نبیوں کا سردار
محمدؐ
نور نگہ سرکار محمدؐ ، جس کا وہ منظور
نظر تھا
آشاؤں کی اس بستی میں ، میں نے بھی
فیض اُس کا پایا
مجھ پر بھی تھا اُس کا چھایا ، جس کا
میں ادنیٰ چاکر تھا
اتنے پیار سے کس نے دی تھی میرے دل
کے کواڑ پہ دستک
رات گئے مرے گھر کون آیا ، اُٹھ کر
دیکھا تو ایشر تھا
عرش سے فرش پہ مایا اُتری ، رُوپا ہو
گئی ساری دھرتی
مٹ گئی کلفت چھا گئی مستی ۔وہ تھا میں
تھا من مندر تھا
تجھ پر میری جان نچھاور ۔ اتنی کرپا
اک پاپی پر
جس کے گھر نارائن آیا ۔وہ کیڑی سے بھی
کمتر تھا
رب نے آخر کام سنوارے ، گھر آئے بِرہا
کے مارے
آ دیکھے اونچے مینارے ، نورِ خدا تا
حدِ نظر تھا
مولا نے وہ دن دکھلائے ، پریمی روپ
نگر کو آئے
ساتھ فرشتے پر پھیلائے ، سایہ رحمت
ہر سر پر تھا
عشق خدا مونہوں پر” وَسّے ”
پھوٹ رہا تھا نور نظر سے
اکھین سے مے پیت کی برسے ، قابل ِدید
ہر دیدہ ور تھا
لیکن آہ جو رستہ تکتے ، جان سے گزرے
تجھ کو ترستے
کاش وہ زندہ ہوتے جن پر ، ہجر کا اک
اک پل دوبھر تھا
آخر دم تک تجھ کو پکارا ، آس نہ ٹوٹی
، دل نہ ہارا
مصلحِ عالم باپ ہمارا ، پیکر ِصبر و
رضا ، رہبر تھا
سدا سہاگن رہے یہ بستی ، جس میں پیدا
ہوئی وہ ہستی
جس سے نور کے سوتے پھوٹے ، جو نوروں
کا اک ساگر تھا
ہیں سب نام خدا کے سندر ، واہے گرو
،
اللہ اکبر
سب فانی ، اک وہی ہے باقی ، آج بھی
ہے جو کل ایشر تھا
جلسہ سالانہ قادیان ١٩٩١ء

اپنا تبصرہ بھیجیں