
19۔ دشت طلب میں
کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ53۔54
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ53۔54
19۔ دشت طلب میں
دشت طلب میں جا بجا ، بادلوں کے ہیں
دَل پڑے
دَل پڑے
کاش کسی کے دل سے تو چشمۂ فیض اُبل
پڑے
پڑے
بے آسراؤں کے لئے کوئی تو اَشکبار ہو
پیاس بجھے غریب کی تشنہ لبوں کو کَل
پڑے
پڑے
بادِ سموم سے چمن ، دَردوں دُکھوں سے
لد گیا
لد گیا
آہِ فقیر سے مرے اَشک اُبل اُبل پڑے
چشمِ حزیں کے پار اُدھر ۔ دردِ نہاں
کی جھیل پر
کی جھیل پر
کھلتے ہیں کیوں کسے خبر ، حسرتوں کے
کنول پڑے
کنول پڑے
سود و زیاں سرور و غم ، روشنیوں کے
زیر و بم
زیر و بم
آس بجھے تو یاس کے دیپ کی لو اُچھل
پڑے
پڑے
چاند نے پی ہوئی تھی رات ، ڈول رہی
تھی کائنات
تھی کائنات
نور کی مے اُتر رہی تھی ، عرش سے جیسے
طَلْ پڑے
طَلْ پڑے
بن گئی بزم ِشش جہات میکدۂ تجلیات
دَیر و حرم کو چھوڑ کر رند نکل نکل
پڑے
پڑے
صبر کا درس ہو چکا ، اب ذرا حالِ دل
سنا
سنا
کہتے ہیں تجھ کو ناصحا ، چَین نہ ایک
پل پڑے
پل پڑے
آنکھ میں پھانس کی طرح ہجر کی شب اَٹک
گئی
گئی
اے مرے آفتاب آ ۔ رات ٹلے تو کَل پڑے
کون رہ ِفراق سے لوٹ کے پھر نہ آ سکا
کس کے نقوشِ منتظر ، رہ گئے بے محل
پڑے
پڑے
راہ خدا میں منزلِ مرگ پہ سب مچل گئے
ہم بھی رُکے رُکے سے تھے ، اِذن ہوا
تو چل پڑے
تو چل پڑے
1990ء