
10۔ اے میرے سانسوں میں بسنے والو!
کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ26۔27
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ26۔27
10۔ اے میرے سانسوں میں بسنے والو!
دیارِ مغرب سے جانے والو! دیار ِمشرق
کے باسیوں کو
کے باسیوں کو
کسی غریب الوطن مسافر کی چاہتوں کا
سلام کہنا
سلام کہنا
ہمارے شام و سحر کا کیا حال پوچھتے
ہو کہ لمحہ لمحہ
ہو کہ لمحہ لمحہ
نصیب اِن کا بنا رہے ہیں تمہارے ہی
صبح و شام کہنا
صبح و شام کہنا
تمہاری خوشیاں جھلک رہی ہیں مرے مقدر
کے زائچے میں
کے زائچے میں
تمہارے خونِ جگر کی مے سے ہی میرا بھرتا
ہے جام کہنا
ہے جام کہنا
الگ نہیں کوئی ذات میری ، تمہی تو ہو
کائنات میری
کائنات میری
تمہاری یادوں سے ہی مُعَنوَن ہے زیست
کا انصرام کہنا
کا انصرام کہنا
اے میرے سانسوں میں بسنے والو! بھلا
جدا کب ہوئے تھے مجھ سے
جدا کب ہوئے تھے مجھ سے
خدا نے باندھا ہے جو تعلق رہے گا قائم
مدام کہنا
مدام کہنا
تمہاری خاطر ہیں میرے نغمے ، مری دعائیں
تمہاری دولت
تمہاری دولت
تمہارے درد و اَلم سے تر ہیں مرے سجود
و قیام کہنا
و قیام کہنا
تمہیں مٹانے کا زعم لے کر اُٹھے ہیں
جو خاک کے بگولے
جو خاک کے بگولے
خدا اُڑا دے گا خاک اُن کی ، کرے گا
رُسوائے عام کہنا
رُسوائے عام کہنا
خدا کے شیرو! تمہیں نہیں زیب خوف جنگل
کے باسیوں کا
کے باسیوں کا
گرجتے آگے بڑھو کہ زیر نگیں کرو ہر
مقام ۔کہنا
مقام ۔کہنا
بساط دنیا اُلٹ رہی ہے ، حسین اور پائیدار
نقشے
نقشے
جہانِ نو کے اُبھر رہے ہیں ، بدل رہا
ہے نظام ۔ کہنا
ہے نظام ۔ کہنا
کلید فتح و ظفر تھمائی تمہیں خدا نے
اب آسماں پر
اب آسماں پر
نشانِ فتح و ظفر ہے لکھا گیا تمہارے
ہی نام کہنا
ہی نام کہنا
بڑھے چلو شاہراہ ِدینِ متیں پہ دَرّانا
، سائباں ہے
، سائباں ہے
تمہارے سر پر خدا کی رحمت قدم قدم ،
گام گام کہنا
گام گام کہنا
جلسہ سالانہ یو کے ١٩٨٦ء