45۔ تُم

بخار
دل صفحہ122۔124

45۔
تُم

علاج دردِ دِل تُم ہو، ہمارے دِلرُبا
تُم ہو
تمہارا مُدَّعا ہم ہیں، ہمارا مُدَّعا
تُم ہو
مِری خوشبو، مرا نغمہ، مِرے دِل کی
غِذا تُم ہو
مِری لَذَّت، مِری راحت، مِری جَنَّت،
شہا تُم ہو
مِرے دلبر، مرے دلدار، گنجِ بے بہا
تُم ہو
صنم تو سب ہی ناقِص ہیں فقط کامِل خدا
تُم ہو
مِرے ہر درد کی، دُکھ کی، مُصیبت کی،
دوا تُم ہو
رَجا تُم ہو، غِنا تُم ہو، شِفا تُم
ہو، رَضا تُم ہو
جَفا مَیں ہوں، وَفا تُم ہو، دُعا مَیں
ہوں، عَطاتم ہو
طَلَب مَیں ہوں، سَخا تُم ہو، غرض میرے
پِیا تُم ہو
مِرا دِن تُم سے جگمگ ہے، مِری شب تُم
سے ہے جھم جھم
مِرے شمسُ الضُّحیٰ تُم ہو، مِرے بَدْرُالدُّجےٰ
تُم ہو
سُجھائی کچھ نہیں دیتا، تمہارا گر نہ
ہو جلوہ
کہ دِل کی روشنی تُم ہو، اور آنکھوں
کی ضِیا تُم ہو
ملائک جس کی حضرت میں کریں
اِقرارِ لاعلمی
وہ عَلَّامُ الغَیُوب اور واقِفِ سِرّ
و خَفا تُم ہو
بہت صَیقل کیا ہم نے جِلا دیتے رہے
ہر دَم
کہ تا اس دِل کے آئینے میں میرے رُونُما
تُم ہو
کہاں جائیں؟ کدھر دوڑیں کسے پوچھیں
کہاں پہنچیں
بھٹکتوں کو سنبھالو، ہادئ راہِ ہُدیٰ
تُم ہو
تُم ہی مخفی ہو ہر لَے میں، تُم ہی
ظاہر ہو ہرلَے میں
اَزَل کی اِبتدا تُم ہو، اَبَد کی اِنتہا
تُم ہو
اَلَستُ پُشتِ آدم میں کہا تھا جس کو’
وہ مَیں تھا
سنا قولِ بَلیٰ جس نے وہ میرے ربَّنا
تُم ہو
تباہی سے بچا کر گود میں اپنی مجھے
لے لو
کہ فانی ہے یہ سب دنیا، بس اک رُوحِ
بقا تُم ہو
میں شاکر گر ہوں نعمت کا، توصابِر بھی
مصیبت پر
کہ اُلفت کی جزا تُم ہو، مَحبت کی سزا
تُم ہو
ہر اِک خُوبی مِری فیضِ خداوندی کا
پرتَو ہے
خِرد حکمت، بصیرت، معرِفت، ذِہن رَسا
تُم ہو
مِرا ہر جا کہ مے بینم، رُخِ
جاناں نظر آید
حیاتِ جسم، نورِ رُوح، عالَم کی ضِیا
تُم ہو
لگایا عشق ہم سے خود تو پھر ہم بھی
لگے مرنے
تمہارے مُبتَدا ہم تھے، ہمارے مُنتَہا
تُم ہو
عنایت کی نظر ہو کچھ کہ اپنی ہے حقیقت
کیا
تمہاری خاکِ پا ہم ہیں، ہماری کیمیا
تُم ہو
بھنور میں میری کشتی ہے بچا لو غَرق
ہونے سے
حوالے یہ خدا کے ہے اب اِس کے ناخدا
تُم ہو
شبِ تاریک و بیمِ مَوج و گردابے
چُنیں ہائل
مصائِب خواہ کتنے ہوں ہمارا آسرا تُم
ہو
ہر اِک ذرّے میں جلوہ دیکھ کر کہتی
ہیں یہ آنکھیں
تُم ہی تُم ہو، تُم ہی تُم ہو، خدا
جانے کہ کیا تُم ہو1؎
نہ تُم اس ہاتھ کو چھوڑو، نہ ہم چھوڑیں
گے یہ دامن
غلامِ میرزاؑ ہم ہیں، خدا ئے میرزاؑ
تُم ہو
اِلٰہی بَخش دو میری خطائیں میری تَقصِیریں
کہ غَفّارُ الذُّنوب اور ماحیئ جرم
و خطا تُم ہو
مناجاتیں تو لاکھوں تھیں مگر اک جُنبِشِ
سر سے
پسند اس کو کیا جس نے وہ میرے کِبریا
تُم ہو
1؎ یہ مناجات بنا کر میں ایک دن آدھی رات کو
اسے پڑھ رہا تھا جب اس شعر پر پہنچا تو مجھے انوار و برکات اور قبولیت کا بشدت
احساس ہوا۔ اس پر میں نے اُسی وقت آخری شعر میں اس کا ذکر کر کے مناجات کو مکمل کر
دیا اور اسے الفضل میں چھپنے کے لئے بھیج دیا۔
الفضل 2فروری 1943ء

اپنا تبصرہ بھیجیں