
116۔ بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب اپنے لطف و کرم کی نظر کر
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ344۔345
دراز دستِ دعا مرا صفحہ344۔345
116۔ بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
ترے عرش کو جو ہلا دے الٰہی، دعاؤں
میں اب تُو وہ پیدا اثر کر
میں اب تُو وہ پیدا اثر کر
ہمیں اپنی رحمت کے سائے میں لے لے،
ہمارے گناہوں سے تُو درگزر کر
ہمارے گناہوں سے تُو درگزر کر
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
نہیں آسرا کوئی تیرے سوا بس، تجھی پہ
جمی ہیں ہماری نگاہیں
جمی ہیں ہماری نگاہیں
بجز تیرے در کے کہیں میرے مَولا، کسی
کو بھی ملتی نہیں ہیں پناہیں
کو بھی ملتی نہیں ہیں پناہیں
کرم کر الٰہی تُو اب تو کرم کر، کہ
اشکوں سے تر ہوگئیں سجدہ گاہیں
اشکوں سے تر ہوگئیں سجدہ گاہیں
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
الٰہی دعاؤں کی توفیق دے دے، کہ سجدوں
میں یہ گِڑگڑانے کے دن ہیں
میں یہ گِڑگڑانے کے دن ہیں
ہمارے قدم ڈگمگانے نہ پائیں، یہ ایمان
کے آزمانے کے دن ہیں
کے آزمانے کے دن ہیں
خُدا وندا بندے خُدا بن گئے ہیں، یہی
تیری قدرت دکھانے کے دن ہیں
تیری قدرت دکھانے کے دن ہیں
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
جو نے اُتارا تھا اُس دین سے اب، جُدا اک نرالا نصاب
آگیا ہے
آگیا ہے
عمل جو بھی احکام پہ کر رہا ہے، وہی
شخص زیرِ عتاب آگیا ہے
شخص زیرِ عتاب آگیا ہے
ترے نام پر ہو رہی ہیں وہ باتیں، کہ
انسانیت کو حجاب آگیا ہے
انسانیت کو حجاب آگیا ہے
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
الاؤ دہکتے ہیں نفرت کے ایسے، خلوص
و محبت کے گھر جل رہے ہیں
و محبت کے گھر جل رہے ہیں
وہ احساسِ تقدیس مذہب ہے جاگا، مساجد
کے دیوار و در جل رہے ہیں
کے دیوار و در جل رہے ہیں
زبانوں سے شعلے نِکلتے ہیں ایسے، شرافت
کے قلب و جگر جل رہے ہیں
کے قلب و جگر جل رہے ہیں
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
یہی التجا تجھ سے ہے میرے مولا، کہیں
کوئی انسان ٹھوکر نہ کھائے
کوئی انسان ٹھوکر نہ کھائے
مصائب کی ان یورشوں میں بھٹک کر کہیں
کوئی نادان ٹھوکر نہ کھائے
کوئی نادان ٹھوکر نہ کھائے
کسی کے قدم ڈگمگانے نہ پائیں، کسی کا
بھی ایمان ٹھوکر نہ کھائے
بھی ایمان ٹھوکر نہ کھائے
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
یہ ناموسِ اسلام کے پاسباں، جو سمجھتے
ہیں خود کو یہودی چلن ہیں
ہیں خود کو یہودی چلن ہیں
یہ اسلام کے نام سے کھیلتے ہیں، پراگندہ
فطرت دریدہ دہن ہیں
فطرت دریدہ دہن ہیں
نہیں ان کو اسلاف سے کوئی نسبت کہ وہ
بت شکن تھے یہ مسجد شکن ہیں
بت شکن تھے یہ مسجد شکن ہیں
بہت ہو چکی اے زمانے کے مالک، بس اب
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
اپنے لطف و کرم کی نظر کر
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ
صاحبہ سملہا اللہ