91۔ لو جگ والوں کی بات سُنو سب کہتے ہیں یہ بھٹک گیا

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ276۔277

91۔ لو جگ والوں کی بات سُنو سب کہتے ہیں
یہ بھٹک گیا

لو جگ والوں کی بات سُنو سب کہتے ہیں
یہ بھٹک گیا
پر اس میں ہمارا دوش ہی کیا من کانٹا
لوبھ میں اٹک گیا
اِک جا پہ نہیں بسرام اسے، من تیرا
بالک گیند ہوا
اب اِس چلمن سے ٹکرایا اب اُس آنگن
میں سَٹک گیا
اس پاپی کا وشواس ہی کیا جسے پل دو
پل بھی چین نہیں
کبھی اِن نینوں پہ ریجھ گیا کبھی اُن
زلفوں میں اٹک گیا
اب نگری نگری بھٹکے گا یہ پگ پگ ٹھوکر
کھائے گا
جس ہاتھ میں اس کی ریکھا تھی وہ ہاتھ
ہی پاپی جھٹک گیا
ہے اپنی اپنی سوجھ سکھی تو یہ تو پہیلی
بوجھ سکھی
جس بول نے تجھ کو پرچایا مجھ من میں
کاہے کھٹک گیا
سب افسانوں کی باتیں ہیں یا جگ میں
ایسی نار بھی ہے
جو ہنسی تو موتی بکھر گئے بولی تو غنچہ
چٹک گیا
کوئی اونچا ہو کوئی نیچا ہو کوئی کنکر
ہو کہ موتی ہو
یہ وقت کا برتن تو سب کو بس ایک طرح
سے پھٹک گیا
کیا کشٹ اٹھانے پڑتے ہیں من مندر سُتھرا
رکھنے کو
سوچوں پہ ذرا سی گرد پڑی تو اس میں
جالا لٹک گیا
یہ وقت کا پنچھی تو آگے سے آگے اُڑتا
جائے ہے
ہاں اِک پل کو دیوار پہ آکے ٹھہرا،
ٹھٹھکا، مٹک گیا
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں