
57۔ آشنا فکریں بھی تھیں اور غم بھی نادیدہ نہ تھے
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ195۔196
دراز دستِ دعا مرا صفحہ195۔196
57۔ آشنا فکریں بھی تھیں اور غم بھی نادیدہ
نہ تھے
آشنا فکریں بھی تھیں اور غم بھی نادیدہ
نہ تھے
نہ تھے
پر مسائل زندگی کے اتنے پیچیدہ نہ تھے
جسطرح جذبات کا دریا ہے دِل میں موجزن
ایسے تو بپھرے ہوئے طوفاں بھی شوریدہ
نہ تھے
نہ تھے
کس لئے نظروں میں یوں برقِ تپاں کی
آگئے
آگئے
آرزؤوں کے چمن اتنے تو بالیدہ نہ تھے
غیر تو محسوس کیا کرتے بھلا میری کمی
مڑکے دیکھا تو مِرے اپنے بھی نم دیدہ
نہ تھے
نہ تھے
عشق کی راہوں پہ چل کر منزلیں سر کر
گئے
گئے
جو زمانے کی نگاہوں میں جہاندیدہ نہ
تھے
تھے
ہم تو خود اپنی انا کے چکروں میں پھنس
گئے
گئے
ورنہ منزل صاف تھی رستے بھی پیچیدہ
نہ تھے
نہ تھے
اک نئی لذت سدا اہل نظر پاتے رہے
داستانِ عشق کے اوراق بوسیدہ نہ تھے
وہ تو دَورِ ہجر ہی صدیوں کی کلفت دے
گیا
گیا
شورشِ اعداء سے تو ہم لوگ رنجیدہ نہ
تھے
تھے
کیا ضروری تھا کہ حرفِ مدّعا ہوتا ادا
میری جاں تم سے مِرے حالات پوشیدہ نہ
تھے
تھے
رفتہ رفتہ اُن پہ میری ذات کے جوھر
کُھلے
کُھلے
پہلے تو احباب میرے اتنے گرویدہ نہ
تھے
تھے
شوخئ طرزِ تکلّم نے مجھے رسوا کیا
لوگ یہ سمجھے مِرے افکار سنجیدہ نہ
تھے
تھے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ