50۔ تنظیم گلستان

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ175۔176

50۔ تنظیم گلستان

آج پھر شعلہ بداماں ہے فضائے گلشن
بلبلیں نوحہ کناں ہیں کہ چمن جلتا ہے
آج ہر سمت نظر آتا ہے آہوں کا دھواں
جانے کس آگ میں پھر میرا وطن جلتا ہے
باغباں کیسے ہیں جن کو یہ خبر تک نہ
ہوئی
کہ چمن والوں کا صیاد نے کیا حال کیا
جن کو گلشن کی سیاست کا بھی کچھ علم
نہ تھا
ایسے معصوم شگوفوں کو بھی پامال کیا
ہم تو جس طرح بنے صبر کئے جاتے ہیں
جب نہیں بولتا بندہ تو خدا
بولتا ہے
اُس کے رستے میں کٹھن وقت جو سہہ جاتے
ہیں
اُن پہ اپنے کرم و لطف کے در کھولتا
ہے
کیسی تنظیم گلستاں ہے؟ اِسے کیا کہیے؟
دیکھتے ہیں جسے تضحیک سے ویرانے بھی
باغبانوں سے شگوفوں کی حفاظت نہ ہوئی
آشیاں جل گئے لوٹے گئے کاشانے بھی
اتنے پھولوں کو مسل کے بھی نہ دل شاد
ہوئے
اتنی جانوں کا لہو پی کے بھی سیری نہ
ہوئی
ہم کڑی دھوپ سے بچنے کو یہاں آئے تھے
اپنے حق میں تو یہ چھاؤں بھی گھنیری
نہ ہوئی
امتحاں آتے ہی رہتے ہیں رہ اُلفت میں
جذبۂ شوق کو جو اَور ہوا دیتے ہیں
اور پھر حسن کی اک چشم کرم کے جلوے
ہر کٹھن وقت کو ہر غم کو بُھلا دیتے
ہیں
میرے اِمروز کا فردا یہ دکھایا کس نے
پیار کے نغمے میں ڈوبی یہ نوا کیسی
ہے
آج پھر کس نے پکارا ہے محبت سے مجھے
بے مکانی میں یہ دستک کی صدا
کیسی ہے” ١
ـ؎
یہ وہی ذات ہے ہم پہ جو رہی سایہ فگن
وہی ہستی جو ہر اک غم سے بچا لیتی ہے
جس نے ہر حال میں یوں اپنی حفاظت کی
ہے
جیسے ماں گود میں بچے کو اُٹھا لیتی
ہے
 
١ ؎ یہ مصرع مکرم صاحبزادہ مرزا
مجید احمد صاحب کا ہے۔
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں