
29۔ یہ تم نے کیا کِیا جاناں، یہ تم نے کیا کِیا جاناں
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ119۔123
دراز دستِ دعا مرا صفحہ119۔123
29۔ یہ تم نے کیا کِیا جاناں، یہ تم نے
کیا کِیا جاناں
یہ تم نے کیا کِیا جاناں! یہ تم نے
کیا کِیا جاناں!
کیا کِیا جاناں!
ابھی تو لوٹ کر آنے کا وعدہ بھی نبھانا
تھا
تھا
ابھی تو شہر کی گلیوں میں بھی پھرنا
پھرانا تھا
پھرانا تھا
ابھی تو اپنی بستی کے گلی کوچے سجانا
تھا
تھا
ابھی تو ہجر کے ماروں کی بھی ڈھارس
بندھانا تھا
بندھانا تھا
ابھی تو شعر کہنے تھے ابھی تو گنگنانا
تھا
تھا
ابھی تو آنسوؤں کے ساتھ ہم نے مسکرانا
تھا
تھا
ابھی تو مل کے ہم نے پیار کے نغمات
گانے تھے
گانے تھے
ابھی تو دل کے سارے داغ بھی تم کو دکھانے
تھے
تھے
جو مثل ریگ ہاتھوں سے ہیں نکلے کیا
زمانے تھے
زمانے تھے
یہ تم نے کیا کیا جاناں! یہ تم نے کیا
کِیا جاناں!
کِیا جاناں!
ابھی تو رُوبرو ہم نے ملاقاتیں بھی
کرنی تھیں
کرنی تھیں
ابھی تو تم سے دل کی کتنی ہی باتیں
بھی کرنی تھیں
بھی کرنی تھیں
ابھی تو ناز اٹھوانے، مداراتیں بھی
کرنی تھیں
کرنی تھیں
ابھی اہل وفا نے نذر سوغاتیں بھی کرنی
تھیں
تھیں
ابھی تو میری جاں ہم کو دعاؤں کی ضرورت
تھی
تھی
ابھی تو دان تم نے ہم کو خیراتیں بھی
کرنی تھیں
کرنی تھیں
ابھی تو تشنگی دل کی مرے بجھنے نہ پائی
تھی
تھی
ابھی تو پیار کی کچھ اور برساتیں بھی
کرنی تھیں
کرنی تھیں
تھے اس بستی کے باسی منتظر کہ چاند
نکلے گا
نکلے گا
منور نور سے ہم نے سیاہ راتیں بھی کرنی
تھیں
تھیں
ابھی تو چاندنی کو میرے آنگن میں اُترنا
تھا
تھا
یہ تم نے کیا کِیا جاناں! یہ تم نے
کیا کِیا جاناں!
کیا کِیا جاناں!
یہ میری اور تمہاری پیاری بستی، زندہ
دل بستی
دل بستی
کہ جس کے تم بھی شیدائی تھے جس کی میں
بھی شیدا ہوں
بھی شیدا ہوں
اچانک ہی خبر ایسی سنی کہ ایسے لگتا
ہے
ہے
کہ جیسے کوئی سایہ ہو گیا ہو یا کوئی
جادو
جادو
اثر سے جس کے
ہر ذی روح پتھر بن کے رہ جائے
اگر تم دیکھ لیتے حال اس دم اپنی بستی
کا
کا
تو کتنے دل گرفتہ، کس قدر دلگیر ہو
جاتے
جاتے
مرے آنسو تمہارے پاؤں کی زنجیر ہو جاتے
اے کاش ایسا ہی ہو جاتا، اے کاش ایسا
بھی ہو سکتا
بھی ہو سکتا
نہ بازاروں میں سڑکوں پہ کوئی رونق
نہ ہنگامہ
نہ ہنگامہ
ہر اک سو ہُو کا عالم اور سناٹا سا
طاری تھا
طاری تھا
فسردہ صبحیں، غمگیں شامیں اور سہمی
ہوئی راتیں
ہوئی راتیں
تھیں بس سرگوشیوں میں ہولے ہولے کرب
کی باتیں
کی باتیں
فقط بس سسکیوں کی سرسراہٹ تھی فضاؤں
میں
میں
اداسی رَچ گئی تھی میری بستی کی فضاؤں
میں
میں
یکا یک دی ندا ہاتف نے
ہلچل سی ہوئی پیدا
لی اس بستی نے انگڑائی دریچہ دل کا
بھی کھولا
بھی کھولا
خدا کے فضل کا سایہ، خدا کے پیار کا
جلوہ
جلوہ
سبھی اہل وفا کو اہل بینش کو نظر آیا
اُفق پہ روشنی ابھری، ستارہ ایک پھر
چمکا
چمکا
اُجالے کی کرن نے ہر اندھیرا ختم کر
ڈالا
ڈالا
ہر اک مضطر کے دل پر اک سکینت سی ہوئی
طاری
طاری
ہر اک کے لب پہ کلمہ ہائے حمد و شکر
تھے جاری
تھے جاری
”خدا دارم چہ غم دارم خدا داری
چہ غم داری”
چہ غم داری”
”خدا دارم چہ غم دارم خدا داری
چہ غم داری” ١؎
چہ غم داری” ١؎
مگر میں کیا کروں جاناں مجھے تم یاد
آتے ہو
آتے ہو
تمہارے ساتھ کتنے چہرے یادوں میں چلے
آئے
آئے
وہ اُجلے چاند چہرے
سوچ کر ہی جن کو میرے دل کی نگری میں
اُجالا ہو
اُجالا ہو
چراغاں ہی چراغاں ہو
مری جاں میں کبھی تم کو نہ ہرگز بھول
پاؤں گی
پاؤں گی
میں پھر اک بار اپنے عہد کی تجدید کرتی
ہوں
ہوں
جو میں نے تم سے باندھا تھا نہ وہ پیمان
توڑوں گی
توڑوں گی
میں محبوب حقیقی کا کبھی دامن نہ چھوڑوں
گی
گی
میں اُس کی قدرت ثانی سے ہرگز منہ نہ
موڑوں گی
موڑوں گی
خدا تو فیق دے مجھ کو۔ خدا توفیق دے
مجھ کو
مجھ کو
میں آنے والے کے ہر حکم پر سر کو جھکاؤں
گی
گی
وفاؤں کے دئیے ہر گام پہ پل پل جلاؤں
گی
گی
یہ میرا تم سے وعدہ تھا
یہ میرا تم سے وعدہ ہے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ