23۔ ”جو دُور ہیں وہ پاس ہمارے کب آئینگے”

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ102۔105

23۔ ”جو دُور ہیں وہ پاس ہمارے کب آئینگے”

کب پوپھٹے گی نُور نظارے کب آئیں گے
ظُلمت میں روشنی کے منارے کب آئیں گے
دل ہر گھڑی ہے جن کو پکارے کب آئیں
گے
جو دُور ہیں وہ پاس ہمارے کب
آئیں گے
دِل جن کو ڈھونڈتا ہے وہ پیارے کب آئیں
گے
ماےوسی ہے گُناہ پر آخر تو ہیں بشر
کب ختم ہو گا کرب و اذیّت کا یہ سَفر
تیرہ شبی ہے تابہ کے؟ پُھوٹے گی کب
سحر
ہر دم لگی ہوئی ہے سرِ راہ
پر نظر
آخر ہماری آنکھ کے تارے کب آئیں گے
ہر آنکھ اشکبار، برستی، اداس ہے
ہر جان بے قرار، ترستی، اداس ہے
گر دِل ہے سوگوار، تو ہستی اداس ہے
یا رب ہمارے شاہ کی بستی اداس
ہے
اِس تخت گاہ کے راج دلارے کب آئیں گے
آنکھوں میں سیلِ اشک ہے، ہونٹوں پہ
آہ ہے
جو ہم سے دُور ہیں اُنہیں ملنے کی چاہ
ہے
ہر اک سراپا سوز، مُجسّم کراہ ہے
لب پہ دُعا ہے تیرے کرم پر
نگاہ ہے
عاشق ترے، حبیب ہمارے کب آئیں گے
دَرد و الَم کی شدّتیں ہیں سوز کا وفور
ربِ کریم کر دے یہ ساری بلائیں دُور
جلوے تجلّیات کے اَب اے خدائے نُور
جو سَر کو خَم کئے تری تقدیر
کے حضور
تیری رضا کو پاکے سِدھارے، کب آئیں
گے
بے مائیگی کا اپنی میں کرتی ہوں اعتراف
بارِ الٰہا! میری ہو ہر اک خطا معاف
تُو ساتھ ہو تو کیا جو زمانہ بھی ہو
خلاف
کب راہ ان کی تیرے فرشتے کریں
گے صاف
کب ہوں گے واپسی کے اشارے کب آئیں گے
دل محوِ یادِ یار ہے تو ذہن سُوئے گُل
ہے سوچ کہ بھٹک رہی اطرافِ کوئے گُل
نظروں میں ہے بَسا ہوا گُل رنگ روئے
گُل
صحنِ چمن سے گُل جو گئے مثلِ
بوئے گُل
رحمت کی بارشوں سے نکھارے کب آئیں گے
یہ جَبر و ظُلم و جور کا سورج ڈھلے
گا کب
پھر ہم پہ بابِ رحمتِ یزداں کھلے گا
کب
پھر سے وہ دَور ِ ساغر و مینا چلے گا
کب
زخمِ جگر کو مرہمِ وصلت ملے
گا کب
ٹوٹے ہوئے دلوں کے سہارے کب آئیں گے
گھیرے ہوئے ہے ذہن کو افکار کا ہجوم
بے چین ہیں، کئے ہوئے اندیشۂ و ہموم
جُھلسا رہی ہے گلشنِ امید کو سموم
دیکھیں گے کب وہ محفل کالبدر
فی النجوم
وہ چاند کب ملے گا وہ تارے کب آئیں
گے ”
تضمین بر اشعار حضرت نواب مبارکہ بیگم
صاحب
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں