
انتساب
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ13۔18
دراز دستِ دعا مرا صفحہ13۔18
انتساب
میں نام کس کے کروں مُعَنْوَنْ
میں اس کا کیا انتساب لکھوں!
یہ سوچتی ہوں رقم کروں کیا
اگر میں کوئی کتاب لکھوں!
ہیں کتنے پیارے، ہیں کتنے رشتے کہ جن
کی بے پایاں چاہتیں ہیں
کی بے پایاں چاہتیں ہیں
ہے غمگساروں کی غمگساری تو دوستوں کی
رفاقتیں ہیں
رفاقتیں ہیں
ہیں کتنے ہی مجھ سے چھوٹے ایسے کہ جن
کے دل میں عقیدتیں ہیں
کے دل میں عقیدتیں ہیں
ہیں بے ریا جن کے صاف سینے، محبتیں
ہی محبتیں ہیں
ہی محبتیں ہیں
وہ جن کی آنکھوں سے قطرہ قطرہ مئے محبت
ٹپک رہی ہے
ٹپک رہی ہے
وہ جن کے چہروں سے روشنی سی خلوصِ دل
کی جھلک رہی ہے
کی جھلک رہی ہے
وہ جن کے شفاف، پاک جذبے مرے بھی جذے
جگا رہے ہیں
جگا رہے ہیں
مجھے بھی جینا سکھا رہے ہیں
یہ پھول چہرے گلاب چہرے کہ جن میں کتنی
تراوتیں ہیں
تراوتیں ہیں
یہ پاک سینے کہ جن میں کیسی خلوصِ دل
کی حلاوتیں ہیں
کی حلاوتیں ہیں
کدورتیں نہ کثافتیں ہیں صداقتیں ہی
صداقتیں ہیں
صداقتیں ہیں
ہیں کتنے میرے بڑے کہ سینوں میں جن
کے بے پایاں شفقتیں ہیں
کے بے پایاں شفقتیں ہیں
وہ مجھ پہ جن کی عنایتیں بے پناہ پیہم
نوازشیں ہیں
نوازشیں ہیں
دعاؤں کے جو حصار اُنکی مرا احاطہ کئے
ہوئے ہیں
ہوئے ہیں
تو خیر خواہی کی اُن کے جذبے مجھے تحفظ
دیئے ہوئے ہیں
دیئے ہوئے ہیں
یہی تو ہیں کہ دعائیں جن کی ہر امتحاں
سے نکالتی ہیں
سے نکالتی ہیں
ہر ایک دکھ سے بچا رہی ہیں ہر اک قدم
پہ سنبھالتی ہیں
پہ سنبھالتی ہیں
مَیں نام کس کے کروں مُعَنْوَنْ
مَیں اس کا کیا انتساب لکھوں!
اگر مَیں کوئی کتاب لکھوں!
یہ میرے چاروں طرف عجب سی بساطِ ہستی
بچھی ہوئی ہے
بچھی ہوئی ہے
کہیں ہے شادی —— کہیں ہے ماتم
کہیں خوشی ہے —— کہیں پہ ہے غم
کہیں ہے شاہ اور کہیں پیادہ
کسی کے ہے سامنے ہی منزل
کسی کی آنکھوں سے گُم ہے جادہ
کسی نے جیتی ہے ساری بازی
کسی کو یاں مات ہو رہی ہے
کسی کے گھر نور کے اُجالے
کسی کے ہاں رات ہو رہی ہے
کسی کے سینے میں ناگ نفرت کا سر اٹھائے
کھڑا ہوا ہے
کھڑا ہوا ہے
اُسی کی شہ رگ کو ڈس رہا ہے
ہے زہر ایسا جلن سے جس کی خود اُس کا
سینہ تپک رہا ہے
سینہ تپک رہا ہے
الاؤ بن کے دہک رہا ہے
مَیں برملا کہہ دوں ساری باتیں
کہ سب ورائے حجاب لکھوں!
اگر مَیں کوئی کتاب لکھوں!
ہے ایک دنیا مری بھی سوچوں کی ایک جنت
نظیر دنیا
نظیر دنیا
محبتوں کا جہان آباد اس میں دیکھو
—— یہاں پہ لوگو
—— یہاں پہ لوگو
نہ نفرتیں نہ عداوتیں ہیں —— نہ
بغض ہے نہ کدورتیں ہیں
بغض ہے نہ کدورتیں ہیں
نہ بدگمانی نہ بے یقینی —— نہ عیب
جوئی نہ نکتہ چینی
جوئی نہ نکتہ چینی
نہ اجنبیت نہ ناشناسی —— نہ بے
وفائی نہ ناسپاسی
وفائی نہ ناسپاسی
نہ بے نوائی نہ نارسائی —— نہ خود
پرستی نہ خود نمائی
پرستی نہ خود نمائی
نہ چیرہ دستوں کی چیرہ دستی ——
نہ خون ارزاں نہ جان سستی
نہ خون ارزاں نہ جان سستی
حسد نہ رنجش نہ بغض و کینہ —— ہے
آئینہ سا ہر ایک سینہ
آئینہ سا ہر ایک سینہ
نہ کورچشمی نہ کم نگاہی —— نہ راہ
گم نہ بھٹکتے راہی
گم نہ بھٹکتے راہی
نہ بدگمانی کی شدتیں ہیں نہ تلخیوں
کی حکایتیں ہیں
کی حکایتیں ہیں
حقیقتوں کو بیاں کروں میں
کہ اپنی آنکھوں کے خواب لکھوں محبتوں
کے نصاب لکھوں
کے نصاب لکھوں
اگر مَیں کوئی کتاب لکھوں!
وہ میرا مالک وہ میرا مولیٰ
کہ جس کے فضل و کرم کا سر پہ مرے ہمیشہ
رہا ہے سایہ
رہا ہے سایہ
میں جب کبھی پھنس گئی ہوں دلدل میں
اُس نے اس سے مجھے نکالا
اُس نے اس سے مجھے نکالا
کبھی جو کھائی ہے میں نے ٹھوکر تو اُس
نے بڑھ کے مجھے سنبھالا
نے بڑھ کے مجھے سنبھالا
وہ عیب پوش و غفور و ستار میرا مالک
مری خطاؤں کی پردہ پوشی اگر نہ کرتا
تو اہل دنیا تو مجھ سے ایسا سلوک کرتے
کہ ِاس جہاں میں مرا ٹھکانہ کہیں نہ
ہوتا
ہوتا
کرم اُسی کا ہے سر اٹھا کے جو جی رہی
ہوں
ہوں
میں سوچتی ہوں
اذیتوں کے مقابلہ میں
سکینتوں کے حساب لکھوں
ورق ورق، باب باب لکھوں
اگر میں کوئی کتاب لکھوں
مَیں نام کس کے کروں مُعَنْوَنْ!
مَیں اس کا کیا انتساب لکھوں!
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ