345۔ یہ غزلیں مری، یہ ترانے مرے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ510

345۔ یہ غزلیں مری، یہ ترانے مرے

یہ غزلیں مری، یہ ترانے مرے
ملاقات کے ہیں بہانے مرے
کھڑے ہیں جو دشمن سرھانے مرے
یہ سب مہرباں ہیں پرانے مرے
نہ جانے اسے کیوں پسند آ گئے
مرے عذر، حیلے بہانے مرے
ہے سب آنا جانا اُسی کے لیے
نہ آنے مرے ہیں، نہ جانے مرے
اُسی کے لیے ہیں اسی کی قسم
یہ جتنے بھی ہیں عاشقانے مرے
نہیں ہیں فقط ماہ اور سال ہی
یہ صدیاں مری ہیں، زمانے مرے
ندامت کے آنسو ہیں، چن لیجیے
یہ تسبیح کے دانے دانے مرے
حقیقت بنے دیکھتے دیکھتے
کبھی خواب تھے جو سہانے مرے
مجھے ڈر کہیں جل نہ جائے چمن
اگر جل گئے آشیانے مرے
پرندوں کو بھی ہو گی شرمندگی
خطا ہو نہ جائیں نشانے مرے
میں کچھ بھی نہیں ہوں مگر بعد میں
بنا لیجیے گا فسانے مرے
ملاقات اب ہو گی مضطرؔ! وہیں
سرِ دار ہیں جو ٹھکانے مرے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں