228۔ یہ پیڑ کیا اُگا ہے امسال گھر کے اندر

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ339۔340

228۔ یہ پیڑ کیا اُگا ہے امسال گھر کے اندر

یہ پیڑ کیا اُگا ہے امسال گھر کے اندر
موسم بدل گیا ہے قلب و نظر کے اندر
ہیں سینکڑوں دریچے دیوار و در کے اندر
مخفی نہیں کسی سے جو کچھ ہے گھر کے
اندر
یہ آنے جانے والی پگڈنڈیاں نہیں ہیں
اُلفت کے راستے ہیں میرے نگر کے اندر
اے مسکرانے والے! تُو جانتا نہیں ہے
ہم بھی ہیں اک حقیقت شام و سحر کے اندر
چندھیا گئی ہیں جس سے میری نحیف آنکھیں
یہ کون آ گیا ہے یوں بن سنور کے اندر
اندر سے کر سکو گے طوفان کا تماشا
آؤ نا بیٹھ جاؤ تم بھی بھنور کے اندر
جب بھی کیا ہے ان سے تصویر کا تقاضا
خود چل کے آ گئے ہیں وہ چشمِ تر کے
اندر
اندر کے آدمی کا آساں نہیں ہے مرنا
زندہ ہے آد ّمیت اب بھی بشر کے اندر
کامل ہو راہبر تو ہر اک قدم ہے منزل
یہ تجربہ ہؤا ہے اب کے سفر کے اندر
کوئی تو ہو رہا ہے اعلان آسماں پر
ہلچل مچی ہوئی ہے شمس و قمر کے اندر
ڈر ہے نکل نہ جائے یہ پھاڑ کر چھتوں
کو
وہ قوتِ نمو ہے، مضطرؔ! شجر کے اندر
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں