227۔ ہو گیا سنسان کمرہ اس کا چہرہ دیکھ کر

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ337۔338

227۔ ہو گیا سنسان کمرہ اس کا چہرہ دیکھ
کر

ہو گیا سنسان کمرہ اس کا چہرہ دیکھ
کر
ڈر گیا وہ خود بھی آئینوں کو ڈرتا دیکھ
کر
لکھ رہے ہیں لوگ کیا کیا اس”حسیں٭”کی
شان میں
ہم بھی کچھ لکھیں گے لیکن ناک نقشہ
دیکھ کر
شاید اس پر نام لکھا ہو اُسی ”عیّار”
کا
رُک گیا ہوں راہ میں کاغذ کا پرزہ دیکھ
کر
رِس رہا ہے اس کی دیواروں سے یادوں
کا لہو
آپ کو تکلیف ہو گی میرا کمرہ دیکھ کر
منجمد، سنگلاخ، بے حس میرے اندر کا
پہاڑ
پانی پانی ہو گیا بادل برستا دیکھ کر
رات ہم نے احتیاطاً اپنے مٹی کے حصار
اور اونچے کر لیے پانی کو چڑھتا دیکھ
کر
رات کے عفریت دیواروں کے اندر چھپ گئے
شہر زندہ ہو گیا سورج نکلتا دیکھ کر
یہ کمالِ قرب تھا یا اپنے منصب کا شعور
ریت بھی چلنے لگی دریا کو چلتا دیکھ
کر
ہر طرف آنکھیں ہی آنکھیں جیتی،جلتی،جاگتی
ڈر گیا وہ شوخ بھی آنکھوں کا پہرہ دیکھ
کر
اپنے بنجر ہاتھ پر اتنے نہ گل بوٹے
بنا
تُو کہیں قائل نہ ہو جائے تماشہ دیکھ
کر
ہو چکا ہے ٹوٹ کر تقسیم اک انبوہ میں
لوگ تنہا جانتے ہیں اس کو تنہا دیکھ
کر
پھر حسینؓ ابنِ علیؓ پہنچے سرِ نہرِ
فرات
پھر فلک نیچے اُتر آیا نظارہ دیکھ کر
پھر وہی اظہار کی سولی ہے اور مضطرؔ!
ہوں میں
پھر مجھے لفظوں نے آ گھیرا اکیلا دیکھ
کر
٨٠۔ ١٨٧٩ء
٭۔۔۔۔۔۔ ایک آمر
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں