
10۔ الٰہی کیا کروں بتخانے پر بت خانہ آتا ہے
کلامِ
مختار ؔ
مختار ؔ
10۔ الٰہی کیا کروں بتخانے پر بت خانہ آتا
ہے
نرالا مست ہوں زاہد بھی
مشتاقانہ آتا ہے
مشتاقانہ آتا ہے
کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا
اب آزادانہ آتا ہے
اب آزادانہ آتا ہے
بڑی مشکل ہے وہ بھی منحرف
ہیں دل بھی برگشتہ
ہیں دل بھی برگشتہ
نہ وہ آتے ہیں قابو میں نہ
یہ دیوانہ آتا ہے
یہ دیوانہ آتا ہے
یہ میری خفتہ بختی خواب
میں بھی وہ نہیں آتے
میں بھی وہ نہیں آتے
اورآتے ہیں تو یوں جیسے
کوئی بیگا نہ آتا ہے
کوئی بیگا نہ آتا ہے
کہاں رکتا ہے ذکرِ بادۂ
ومینا و ساغرسے
ومینا و ساغرسے
جہاں بھی واعظ آجائے وہیں
میخا نہ آتا ہے
میخا نہ آتا ہے
وہی کھنچنا،وہی ملنا،وہی
چلنا،وہی رکنا
چلنا،وہی رکنا
مگر خنجر کو بھی اندازِ
معشوقا نہ آتا ہے
معشوقا نہ آتا ہے
حرم کی راہ بھی خالی نہیں
خطراتِ پیہم سے
خطراتِ پیہم سے
الٰہی کیا کروں بتخانے پر
بتخا نہ آتا ہے
بتخا نہ آتا ہے
مرے دل سے گئی ہے آرزو اُن
کی نہ جائے گی
کی نہ جائے گی
مگر میرا خیال اُن کونہ
آئے گا نہ آتا ہے
آئے گا نہ آتا ہے
زیارت گاہ بن بیٹھا ہے اُن
کا دیکھنے والا
کا دیکھنے والا
کہ اک عالم کا عالم روز
مشتاقا نہ آتا ہے
مشتاقا نہ آتا ہے
فقط اس آس پر جیتا رہا میں
ناتواں برسوں
ناتواں برسوں
کہ اک ساعت میں وہ
مغرورمحجوبا نہ آتا ہے
مغرورمحجوبا نہ آتا ہے
یہ فیضِ خاص ہے مختاؔر
ابنِ شاہِ مینا1 کا
ابنِ شاہِ مینا1 کا
کہ لب پر شعر بن کر نعرۂ
مستا نہ آتا ہے
مستا نہ آتا ہے
1۔اشارہ ہے حضرت امیر
مینائی ؔمرحوم کی طرف
مینائی ؔمرحوم کی طرف
نوٹ ۔یہ نظم ماہنامہ
"خالد”ربوہ میں ماہ تبلیغ 1348ھش (بمطابق فروری 1969ء)میں شائع ہو چکی
ہے۔
"خالد”ربوہ میں ماہ تبلیغ 1348ھش (بمطابق فروری 1969ء)میں شائع ہو چکی
ہے۔
(حیات حضرت مختار صفحہ 313-314)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ