15۔ نظم۔ بڑا آج فضلِ خدا ہورہا ہے

کلامِ
مختار ؔ

15۔ نظم۔ بڑا آج فضلِ خدا ہورہا ہے

(یہ نظم بر موقعہ جلسہ
سالانہ پڑھی گئی )
بڑا آج فضلِ خدا ہورہا ہے
کہ حاصل مرا مدعا ہورہا ہے
اِدھر احمدی ہیں اُدھر احمدی ہیں
اُولوالعزم جلوہ نما ہورہا ہے
ستاروں میں جس طرح ہو ماہ
روشن
یہ رنگ آج صل علیٰ ہورہا ہے
یہ انبوہِ خلقت یہ جوشِ
عقیدت
نہایت ہی راحت فز ا ہورہا ہے
مزے سے مزے لوٹتی ہیں
نگاہیں
کہ منظر بہت خوشنما ہورہا ہے
اٹھیں کیوں نہ رہ رہ کے دل
میں امنگیں
تماشائے شانِ خد ا ہورہا ہے
ہے ایک ایک محمود احمد کا
شیدا
جسے دیکھتا ہوں فد ا ہورہا ہے
پھرے ہیں نہ عہدِ وفا سے
پھریں گے
یہی تذکرہ جابجا ہورہا ہے
سوا اس کے ہے اور کچھ جس
کے دل میں
وہ پابندِ حرص وہوا ہورہا ہے
کوئی جا کہ کہہ دے یہ اس
خود نما سے
جو اپنی ادا پہ فدا ہورہا ہے
کہیں منہ کی پھونکوں سے
بجھتا ہے سورج
ارے میرے دانا یہ کیا ہورہا ہے
کدھر آج تیرِ ستم چل رہے
ہیں
کدھر وارِ تیغِ جفا ہورہا ہے
جو ہونا تھا بالقصداس کو
بھُلایا
جو بھولے سے ہونا نہ تھا ہورہا ہے
جو جائز نہ تھا ہوگیا آج
جائز
جو تھا ناروا وہ روا ہورہا ہے
وہ محمود احمد جو ہے ابنِ
مہدی
اُسی پر ستم برملا ہورہا ہے
وہ کس کو سنائیں وہ کیونکر
دکھائیں
جو حالِ دلِ مبتلا ہورہا ہے
نتیجہ یہ غیروں سے ملنے کا
نکلا
کہ بھائی سے بھائی جدا ہورہا ہے
بلاتے ہیں کس واسطے اب وہ ہم
کو
مگراُن کو کچھ وہم سا ہورہا ہے
ہوئی ہے نہ ہوگی امید اُن
کی پوری
کہ اب ان کا راز آئینہ ہورہا ہے
بس اب امن اسی میں ہے مختاؔر
احمد
اسے چھوڑ دو جو جدا ہورہا ہے
(حیات حضرت مختار صفحہ257-258)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ

اپنا تبصرہ بھیجیں