40۔ تم ایسی محبت مت کرنا

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ23۔24

40۔ تم ایسی محبت مت کرنا

تم ایسی محبت مت کرنا
مرے خوابوں میں چہرہ دیکھو
اور میری قائل ہو جاؤ
تم ایسی محبت مت کرنا
مرے لفظوں میں وہ بات سنو
جو بات لہو کی چاہت ہو
پھر اس چاہت میں کھو جاؤ
تم ایسی محبت مت کرنا
یہ لفظ مرے یہ خواب مرے
ہر چند یہ جسم و جاں ٹھہرے
پر ایسے  جسم و جاں تو نہیں
جو اور کسی کے پاس نہ ہوں
پھر یہ بھی تو ممکن ہے ، سوچو
یہ لفظ مرے ،یہ خواب مرے
سب جھوٹے ہوں
تم ایسی محبت مت کرنا
گر کرو محبت تو ایسی
جس طرح کوئی سچائی کی رَوہر جھوٹ کو
سچ کر جاتی ہے
1974ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں