58۔ آوارگی پہ ہم نے بہت دن گزر کیا

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ59۔60

58۔ آوارگی پہ ہم نے بہت دن گزر کیا

آوارگی پہ ہم نے بہت دن گزر کیا
جب تھک گئے تو پھر اسی صحرا کو گھر
کیا
رنجِ خزاں سے موجِ ہوائے بہار تک
وہ خواب سلسلہ تھا کہ آنکھوں کو تر
کیا
اس کا بدن تھا جامِ شراب اور لب بہ
لب
ہم تشنۂ لب تھے ہم نے بھی عالم دگر
کیا
تھی ایک زندگی کے برابر وہ ایک رات
اس رات کو بسر کیا اور تا سحر کیا
ہم پہ تھا ایک عشق کا سایا کہ ساری
عمر
اپنی ہی روشنی میں کیا جو سفر کیا
تم لوگ وہ کہ چھوڑ گئے کربلا کے بیچ
ہم لوگ وہ کہ جن نے تمھیں معتبر کیا
کچھ کم نہیں تھا پہلے بھی پامال میرا
شہر
یہ کس کے پاؤں نے اسے پامال تر کیا
کیسی ہوا میں نکلا تھا یہ کاروانِ گل
آخر خزاں کے ہاتھ لگا رخ جدھر کیا
ہم شمعِ حرف پر مٹے اور کیمیا ہوئے
تب دوسروں کے دل پر سخن نے اثر کیا
لکھی ہے  میؔر درد کے مصرعے پہ یہ غزل
اور اس غزل کو ہم نے اسی نام پر کیا
1981ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں