65۔ کمال آدمی کی انتہا ہے

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ73۔75

65۔ کمال آدمی کی انتہا ہے

کمال آدمی کی انتہا ہے
وہ آئندہ میں بھی سب سے بڑا ہے
کوئی رفتا ر ہو گی روشنی کی
مگر وہ اس سے بھی آگے گیا ہے
جہاں بیٹھے صدائے غیب آئی
یہ سایہ بھی اسی دیوار کا ہے
مجسم ہو گئے سب خواب میرے
مجھے میرا خزانہ مل گیا ہے
حقیقت ایک ہے لذّت میں لیکن
حکایت سلسلہ در سلسلہ ہے
یونہی حیراں نہیں ہیں آنکھ والے
کہیں اک آئینہ رکھا ہوا ہے
وصالِ یار سے پہلے محبت
خود اپنی ذات کا اک راستہ ہے
سلامت آئینے میں ایک چہرہ
شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے
چلو اب فیصلہ چھوڑیں اسی پر
ہمارے درمیاں جو تیسرا ہے
رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ
کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے
کسی بچے کی آہیں اٹھ رہی ہیں
غبار اک آسماں تک پھیلتا ہے
اندھیرے میں عجب اک روشنی ہے
کوئی خیمہ دیا سا جل رہا ہے
ہزاروں آبلے پائے سفر میں
مسلسل قافلہ اک چل رہا ہے
جدھر دیکھوں میری آنکھوں کے آگے
اُنہی نورانیوں کا سلسلہ ہے
یہ کیسے شعر تم لکھنے لگے ہو
عبیدؔاللہ تمہیں کیا ہو گیا ہے
1978ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں