70۔ سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ83۔84

70۔ سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا

سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا
یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا
کھلا کہ عشق نہیں ہےکچھ اور اس کے سوا
رضائے یار جو ہو اپنا حال کر رکھنا
اسی کا کام ہے فرشِ زمیں بچھا دینا
اسی کا کام ستارے اچھال کر رکھنا
اسی کا کام ہے اس دکھ بھرے زمانے میں
محبتوں سے مجھے مالا مال  کررکھنا
بس ایک کیفیتِ دل میں بولتے رہنا
بس ایک نشے میں خود کو نہال کر رکھنا
بس ایک قامت زیبا کہ خواب میں رہنا
بس ایک شخص کو حدّ مثال کر رکھنا
گزرنا حسن کی نظارگی سےپل بھر کو
پھر اس کو ذائقہ لازوال کر رکھنا
کسی کہ بس میں نہیں تھا کسی کہ بس میں
نہیں
بلندیوں کو سدا پائمال کر رکھنا
1982ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں