145۔ لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل و جاں اور

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ85۔86

145۔ لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل و
جاں اور

لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل و جاں
اور
کچھ زخم مجھے اے مرے مرہم نظراں اور
اتنا ہی کہ بس نغمہ سرایانِ جہاں ہیں
ملتا نہیں کچھ اس کے سوا اپنا نشاں
اور
کھینچے ہے مری طبعِ سخن اپنی ہی جانب
اور گردشِ دوراں ہے کہ دکھلائے سماں
اور
کچھ نذر ہوئے وقت کی بے رحم ہوا کے
کچھ خواب ابھی میرے لہو میں ہیں رواں
اور
ہر لحظہ میں آزادیِ جاں کا تھا طلب
گار
ہر گام پڑی پاؤں میں زنجیرِ گراں اور
کس طرح سے اچھا ہو وہ بیمار کہ جس کو
دُکھ اور ہو، دیتے ہوں دوا چارہ گراں
اور
1967ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں