
146۔ گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں
یہ
زندگی ہے ہماری۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ87۔88
زندگی ہے ہماری۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ87۔88
146۔ گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں
میں
گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں
سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں
میں
میں
اک طبع رنگ رنگ تھی سو نذرِ گل ہوئی
اب یہ کہ اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہوں
میں
میں
ہو دیدۂ ہنر دلِ دردآشنا کی خیر!
کب لذتِ خیال میں دریا نہیں ہوں
میں
میں
تم نے بھی میرے ساتھ اُٹھائے ہیں دکھ
بہت
بہت
خوش ہوں کہ راہِ شوق میں تنہا نہیں
ہوں میں
ہوں میں
پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے ناشناس دھوپ
سایوں کے درمیان ہوں سایہ نہیں ہوں میں
جو کچھ بھی ہوں، میں اپنی ہی صورت میں
ہوں علیمؔ
ہوں علیمؔ
غالبؔ نہیں ہوں، میرؔ و یگانہ نہیں
ہوں میں
ہوں میں
1965ء
عبید اللہ علیم ؔ