167۔ آؤ تم ہی کرو مسیحائی

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ127۔128

167۔ آؤ
تم ہی کرو مسیحائی

آؤ
تم ہی کرو مسیحائی
اب
بہلتی نہیں ہے تنہائی
تم
گئے تھے تو ساتھ لے جاتے
اب
یہ کس کام کی ہے بینائی
ہم
کہ تھے لذّتِ حیات میں گم
جاں
سے اِک موج ِ تشنگی آئی
ہم
سفر خوش نہ ہو محبّت سے
جانے
ہم کس کے ہوں تمنّائی
کوئی
دیوانہ کہتا جاتا تھا
زندگی
یہ نہیں مرے بھائی
اوّلِ
عشق میں خبر بھی نہ تھی،
عزّتیں
بخشتی ہے رسوائی
کیسے
پاؤ مجھے جو تم دیکھو
سطح
ِ ساحل سے میری گہرائی
جن
میں ہم کھیل کر جوان ہوئے
وہی
گلیاں ہوئیں تماشائی
1972ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں