
30۔ پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے
اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ45۔46
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ45۔46
30۔ پھر کوئی طرفہ تماشا کر دے
پھر
کوئی طرفہ تماشا کر دے
کوئی طرفہ تماشا کر دے
مَیں
برا ہوں مجھے ا ّچھا کر دے
برا ہوں مجھے ا ّچھا کر دے
کہیں
ایسا نہ ہو کوئی لمحہ
ایسا نہ ہو کوئی لمحہ
تجھ
کو ُچھو کر تجھے تنہا کر دے
کو ُچھو کر تجھے تنہا کر دے
لفظ
مر جائے اگر بچپن میں
مر جائے اگر بچپن میں
اس
کا وارث کوئی پیدا کر دے
کا وارث کوئی پیدا کر دے
بخش
دے میری علامت مجھ کو
دے میری علامت مجھ کو
میرے
سر پر مرا سایہ کر دے
سر پر مرا سایہ کر دے
رنگ
و بو بانٹ دے اس سے لے کر
و بو بانٹ دے اس سے لے کر
پھول
کے بوجھ کو ہلکا کر دے
کے بوجھ کو ہلکا کر دے
مَیں
ہوں آلودۂ گردِ غفلت
ہوں آلودۂ گردِ غفلت
مجھ
کو چُھو کر مجھے اُجلا کر دے
کو چُھو کر مجھے اُجلا کر دے
مَیں
بکھر جاؤں تو مجھ کو چن کر
بکھر جاؤں تو مجھ کو چن کر
اپنے
آنگن میں اکٹھا کر دے
آنگن میں اکٹھا کر دے
مجھ
کو ڈر ہے کہ مری خاموشی
کو ڈر ہے کہ مری خاموشی
کوئی
تجھ سے نہ تقاضا کر دے
تجھ سے نہ تقاضا کر دے
آج
کی صبح ہے صبحِ صادق
کی صبح ہے صبحِ صادق
آج
ہر خواب کو ّسچا کر دے
ہر خواب کو ّسچا کر دے
مَیں
بھی پہچان لوں خود کو شاید
بھی پہچان لوں خود کو شاید
میری
جانب مرا چہرہ کر دے
جانب مرا چہرہ کر دے
چھین
کر اشک سے اس کی آواز
کر اشک سے اس کی آواز
اور
بھی اس کو ّنہتا کر دے
بھی اس کو ّنہتا کر دے
مجھ
کو ڈر ہے کہ سرِ بزمِ ’’ادب‘‘
کو ڈر ہے کہ سرِ بزمِ ’’ادب‘‘
تو
کہیں ذکر نہ میرا کر دے
کہیں ذکر نہ میرا کر دے
آئنے
ٹوٹ نہ جائیں مضطر!ؔ
ٹوٹ نہ جائیں مضطر!ؔ
دل
کی دیوار کو سیدھا کر دے
کی دیوار کو سیدھا کر دے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی