74۔ جسم اب بھی ہے، جان اب بھی ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ127۔128

74۔ جسم اب بھی ہے، جان اب بھی ہے

جسم اب بھی ہے، جان اب بھی ہے
عشق کا امتحان اب بھی ہے
اس پہ روح القدس اترتا ہے
وہ سراپا نشان اب بھی ہے
اب بھی پیاسی ہے سر زمینِ نجف
دھوپ کا سائبان اب بھی ہے
وہ اگر ہے تو ہم بھی ہیں یعنی
جان ہے تو جہان اب بھی ہے
مجھ کو پروا نہیں زمانے کی
وہ اگر مہربان اب بھی ہے
جا چکا وہ مگر کفِ جاں پر
نقشِ پا کا نشان اب بھی ہے
ڈَھے چکا کب کا قصرِ استبداد
میرا ّکچا مکان اب بھی ہے
بول سکتا ہوں مَیں اگر چاہوں
میرے منہ میں زبان اب بھی ہے
لاکھ سمجھایا، لاکھ دھمکایا
دل مگر بدگمان اب بھی ہے
خاکِ پا اس کا، جاں نثار اس کا
مضطرِؔ ناتوان اب بھی ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں