128۔ زخم کریدو، شور کرو، فریاد کرو

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ202

128۔ زخم کریدو، شور کرو، فریاد کرو

زخم کریدو، شور کرو، فریاد کرو
بنجر راتیں رو رو کر آباد کرو
سرخ سنہری آگ جلاؤ اشکوں کی
گھر بیٹھے سیرِ اسلام آباد کرو
قاتل ہوں، مقتول بھی ہوں، مقتل بھی
ہوں
کس حیثیت سے بولوں، ارشاد کرو
ہم بھی پیارے! تیرے چاہنے والے ہیں
آنکھ سے آنکھ ملاؤ، روح کو شاد کرو
ناداں، نالائق ہے، عقل سے عاری ہے
عقل کے اندھو! مضطرؔ کو استاد کرو
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں