134۔ مِل ہی جائے گی دل کی منزل بھی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ209۔210

134۔ مِل ہی جائے گی دل کی منزل بھی

مِل ہی جائے گی دل کی منزل بھی
کچھ تو اپنی جگہ سے تُو ہِل بھی
ہم فقیروں سے بے نواؤں سے
مسکرا کر کبھی گلے مل بھی
اس سے سارا جہان ہے ناراض
جو ہے سارے جہان کا دل بھی
ریزہ در ریزہ، لمحہ در لمحہ
ٹوٹ جائے گی وقت کی سل بھی
عہد ہے اس کے درپئے آزار
عہد کا ہے جو پیرِ کامل بھی
کوئی طوفان بھیج دے یا رب!
اب تو پاس آ گیا ہے ساحل بھی
کبھی ملتا کبھی نہیں ملتا
سہل بھی اس کا ملنا مشکل بھی
مسکراہٹ کو دیکھ کر میری
اب تو گھبرا گیا ہے قاتل بھی
جن کو دعویٰ ہے دوستی کا آج
کل مرے قتل میں تھے شامل بھی
کبھی اس پر بھی غور کر مضطرؔ!
تیرا دل ہے تو اس کا ہے دل بھی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں