139۔ ہم ہوئے، ِچشم باطنی نہ ہوئی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ216

139۔ ہم ہوئے، ِچشم باطنی نہ ہوئی

ہم ہوئے، ِچشم باطنی نہ ہوئی
دن چڑھا بھی تو روشنی نہ ہوئی
غمِ جاناں بھی ناتمام رہا
زلف چھائی مگر گھنی نہ ہوئی
دوستوں کا بھی حق ادا نہ ہؤا
دشمنوں سے بھی دشمنی نہ ہوئی
آہ تاریکئ شبِ فرقت
چاند نکلا تو چاندنی نہ ہوئی
جان دے کر مریض لیٹ گیا
مرگِ اُلفت میں جاں کنی نہ ہوئی
مجھ کو میرا سراغ مل جاتا
تیرے چہرے کی چاندنی نہ ہوئی
حیف ایسے سرور پر مضطرؔ!
درد کی جس میں چاشنی نہ ہوئی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں