210۔ پھسلنے کا اگر امکان ہوتا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ310

210۔ پھسلنے کا اگر امکان ہوتا

پھسلنے
کا اگر امکان ہوتا
سنبھلنے
کا بھی کچھ سامان ہوتا
فقیہِ
شہر اگر انسان ہوتا
تو
اہلِ شہر پر احسان ہوتا
صلیبِ
شہر جھک کر بات کرتی
اسیروں
کو بھی اطمینان ہوتا
زمیں
پر رات بھر تارے برستے
فلک
پر جشن کا اعلان ہوتا
جو
آ جاتا کبھی وہ دشت ِجاں میں
یہیں
پر مستقل مہمان ہوتا
وہ
آئینے سے مل کر مسکراتے
اگرچہ
آئنہ حیران ہوتا
اگر
پہچان لیتا مجھ کو قاتل
مَیں
اس کی، وہ مری پہچان ہوتا
غمِ
دوراں، غمِ جاناں، غمِ جاں
کوئی
تو زیست کا سامان ہوتا
کوئی
لہجہ تو ہوتا عرضِ فن کا
غزل
کا کوئی تو عنوان ہوتا
اگر
رونق نہ ہوتی منزلوں کی
تو
رستہ کس قدر ویران ہوتا
اگر
آسان ہوتا مسکرانا
تو
جینا کس قدر آسان ہوتا
اگر
ہوتا یقیں اس بے یقیں کو
تو
جھگڑا بر سرِ میدان ہوتا
کوئی
تو بات مضطرؔ کی سمجھتا
کوئی
تو شہر میں انسان ہوتا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں