230۔ اندر سے اگر نہ مسکراؤں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ342

230۔ اندر سے اگر نہ مسکراؤں

اندر سے اگر نہ مسکراؤں
اس شور میں ٹوٹ پھوٹ جاؤں
اے حسنِ تمام! تیرے احساں
چاہوں بھی تو کس طرح بھلاؤں
نسبت ہے مجھے بھی اک حسیں سے
گمنام ہوں، نام کیا بتاؤں
مدّت سے ہوں منتظر صدا کا
تو بولے تو میں بھی گنگناؤں
تو آئے جو نور میں نہا کر
مَیں راہ میں جسم و جاں بچھاؤں
پلکوں میں سمیٹ لوں ستارے
آئینوں کو آئنہ دکھاؤں
تُو آ تو سہی، مَیں اس خوشی میں
جاں وار دوں، تن بدن لٹاؤں
اس چاند کی چاندنی میں مضطرـؔ!
اشکوں کے چراغ کیا جلاؤں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں