244۔ محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ363

244۔ محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں

محبت کے اظہار تک آ گیا ہوں
خموشی سے تکرار تک آ گیا ہوں
وہ سورج ہے نکلا ہے مغرب میں جا کر
مَیں سایہ ہوں دیوار تک آ گیا ہوں
مہک ہوں تو مَیں پھیلتا جا رہا ہوں
اگر پھول ہوں خار تک آ گیا ہوں
یہ اعجاز ہے ہجر کا اے شبِ غم!
کہ فرقت سے دیدار تک آ گیا ہے
نہیں اتنی جرأت کہ در کھٹکھٹاؤں
اگرچہ درِ یار تک آ گیا ہوں
ملاقات کی کوئی صورت تو ہو گی
یہی سوچ کر دار تک آ گیا ہوں
اگر چپ رہا ہوں تو چرچے ہوئے ہیں
ہنسا ہوں تو اخبار تک آ گیا ہوں
بگولوں کا ڈر ہے نہ آندھی کا خطرہ
مَیں اب دشت کے پار تک آ گیا ہوں
ملے نہ ملے، اس کی مرضی ہے مضطرؔ!
مَیں داتا کے دربار تک آ گیا ہوں
اگست، ١٩٨٨ء
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں