265۔ سر چھپانے کا بندوبست تو ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ393۔394

265۔ سر
چھپانے کا بندوبست تو ہے

سر
چھپانے کا بندوبست تو ہے
شاخیں
ننگی سہی درخت تو ہے
کیا
عجب خود شناس بھی نکلے
قاتلِ
شہر خود پرست تو ہے
مسکرا
کر بٹھا لے پاس اپنے
تیرے
پہلو میں اک نشست تو ہے
راہ
چلتوں پہ ِگر نہ جائے کہیں
دل
کی دیوار لخت لخت تو ہے
دوستوں
سے یہ دوستوں کا گریز
عہد
و آئین کی شکست تو ہے
تم
سناتے ہو بار بار جسے
میری
اپنی ہی سرگزشت تو ہے
جس
کو کہتے ہو عالمِ بالا
طائرِ
جاں کی ایک جست تو ہے
ان
کے ہاں بھی بقدرِ ظرف و مذاق
امتیازِ
بلند و پست تو ہے
یہ
بھی آخر گزر ہی جائے گا
مرحلہ
زندگی کا سخت تو ہے
ایک
دن یار تک بھی پہنچے گا
ذکر
مضطرؔ کا دشت دشت تو ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں