
268۔ ذکر اپنا کبھی تمھارا کیا
اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ397
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ397
268۔ ذکر
اپنا کبھی تمھارا کیا
ذکر
اپنا کبھی تمھارا کیا
اپنا کبھی تمھارا کیا
جس
طرح ہو سکا گزارا کیا
طرح ہو سکا گزارا کیا
بر
سرِ دار دی وفا کی اذاں
سرِ دار دی وفا کی اذاں
عشق
کا جرم آشکارا کیا
کا جرم آشکارا کیا
درد
ہی لاعلاج تھا اپنا
ہی لاعلاج تھا اپنا
ورنہ
کیا کیا نہ ہم نے چارہ کیا
کیا کیا نہ ہم نے چارہ کیا
بات
دل کی زباں پہ آ نہ سکی
دل کی زباں پہ آ نہ سکی
یوں
تو کرنے کو ذکر سارا کیا
تو کرنے کو ذکر سارا کیا
ٹکڑے
ٹکڑے کیے گئے ہم لوگ
ٹکڑے کیے گئے ہم لوگ
وہ
کھڑا زلف کو سنوارا کیا
کھڑا زلف کو سنوارا کیا
تُو
نہ آیا تو درد کا مارا
نہ آیا تو درد کا مارا
تیری
تصویر کو پکارا کیا
تصویر کو پکارا کیا
وہ
”کھلے شہر” ہی میں رہتا تھا
”کھلے شہر” ہی میں رہتا تھا
تُو
جسے عمر بھر پکارا کیا
جسے عمر بھر پکارا کیا
تیرے
غم کے طفیل مضطرؔ نے
غم کے طفیل مضطرؔ نے
ساری
دنیا کا غم گوارا کیا
دنیا کا غم گوارا کیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی