304۔ آنسو تھے تو آنکھ کا زیور ہو جاتے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ453

304۔ آنسو
تھے تو آنکھ کا زیور ہو جاتے

آنسو
تھے تو آنکھ کا زیور ہو جاتے
سینے
دھل جاتے، چہرے تر ہو جاتے
گھومنے
پھرنے والے بے گھر بن باسی
اپنے
گھر میں رہ کر بے گھر ہو جاتے
گھائل
ہو جاتیں آوازیں لفظوں سے
لفظ
بھی ہوتے ہوتے بنجر ہو جاتے
آتے
جاتے رہتے دل کی محفل میں
راہ
میں جتنے موڑ تھے ازبر ہو جاتے
سن
لیتے فریاد اگر تصویروں کی
تصویروں
کے مومن کافر ہو جاتے
آ
جاتا سیلاب چمن میں خوشبو کا
پھول
اگر آپے سے باہر ہو جاتے
کانٹوں
پر چلنے میں کیا دشواری تھی
چلتے
تو چلنے کے خوگر ہو جاتے
شہروں
کی دیواریں خونِ ناحق سے
دُھل
جاتیں تو شہر پوتّر ہو جاتے
مضطرؔ!
ان کو نطق و بیاں کا اذن نہ تھا
ورنہ
آئینے پیغمبر ہو جاتے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں