314۔ شیشے نہیں ٹوٹے ہیں کہ پتھر نہیں بولا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ 464

314۔ شیشے نہیں ٹوٹے ہیں کہ پتھر نہیں بولا

شیشے
نہیں ٹوٹے ہیں کہ پتھر نہیں بولا
اس
پر بھی یہ شکوہ ہے کہ منظر نہیں بولا
دشنام
کی بارش بھی ہوئی سنگ بھی برسے
واللّٰہ
کہ وہ صبر کا پیکر نہیں بولا
مضطرؔ
کو خوشی ہے کہ کٹی مفت میں گردن
گردن
کو شکایت ہے کہ خنجر نہیں بولا
شبنم
میں بھگویا، کبھی اشکوں سے نکھارا
موسم
سے مگر پھر بھی گلِ تر نہیں بولا
رہ
جاتا بھرم کچھ تو مرے کچے مکاں کا
سیلاب
ہی بستی کو نگل کر نہیں بولا
ہونے
کو درِ لفظ پہ دستک تو ہوئی تھی
دیوار
کے لب بند رہے، در نہیں بولا
کچھ
ایسی مٹی رسم و رہِ خارا تراشی
پتھر
کو تراشا بھی تو پتھر نہیں بولا
برپا
تو ہوئی بزمِ سخن شہرِ سخن میں
افسوس
سخن ور سے سخن ور نہیں بولا
کیا
جانیے کیا صدمہ ہؤا ہے اسے مضطرؔ
!
امسال
بھی ساحل سے سمُندر نہیں بولا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں