360۔ جہاں عشق نے برچھیاں ماریاں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ528

360۔ جہاں
عشق نے برچھیاں ماریاں

جہاں عشق نے برچھیاں ماریاں
دھری رہ گئیں شوخیاں ساریاں
زمانے میں ضربُ المَثَل بن گئیں
مری سُستیاں، اس کی ستّاریاں
بس اک لمس سے سربسر مٹ گئیں
سبھی دوریاں، ساری بیماریاں
مرے چارہ گر، میرے غم خوار کو
پسند آ گئیں میری لاچاریاں
لہو رنگ ہے سرزمینِ وفا
یہ کس شوخ نے کی ہیں گل کاریاں
وہ خود آ گیا مسکراتا ہؤا
جسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہاریاں
تری پارسائی مبارک تجھے
مجھے بَس ہیں میری خطاکاریاں
مبارک تمھیں عقل کی عزّتیں
مجھے مل گئیں عشق کی خواریاں
مری سادگی میرے کام آ گئی
خجل ہو گئیں تیری عیّاریاں
حقیروں کو عزت پہ عزت ملی
چھنیں سرفرازوں سے سرداریاں
کدھر کے ارادے ہیں مضطرؔ! کہو
مری جاں! کہاں کی ہیں تیّاریاں؟
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں