356۔ کیوں اشک آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ521۔523

356۔ کیوں
اشک آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں

کیوں اشک آنکھ سے باہر نکل کے دیکھتے
ہیں
کہ اُس کو دیکھنے والے سنبھل کے دیکھتے
ہیں
سنا ہے دید کے قابل ہے اُس کی ہر اک
بات
یہ بات ہے تو چلو ہم بھی چل
کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کے لیے آسمان پر ہے شور
زمیں پہ سلسلے جنگ و جدل کے دیکھتے
ہیں
سنا ہے بولے تو الفاظ فرطِ لذّت سے
حریمِ صوت سے باہر نکل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب وہ سرِ بزم مسکراتا ہے
تو جھوم جاتے ہیں عاشق، مچل کے دیکھتے
ہیں
سنا ہے اُس نے کہا تھا یہ ایک آمِر
سے
کہ ہوشیار! فرشتے اجل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ہاتھ اٹھائے اگر دعا کے لیے
تو حادثات ارادہ بدل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کے غلاموں کی بھی غلام ہے
آگ
یہ بات ہے تو چلو ہم بھی جل کے دیکھتے
ہیں
سنا ہے بھیگنے لگتی ہے جب شبِ فرقت
تو اشک اشک ستارے پگھل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دل کا بدلنا بہت ضروری ہے
اگر یہ بات ہے دل کو بدل کے دیکھتے
ہیں
سنا ہے سوچیں اگر اس کو باوضو ہو کر
تو اختلاف کے پتھر پگھل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اُس کی فتوحات کا شمار نہیں
یہ اور بات ہے اغیار جل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے دین ہیں اک کالی کملی والےؐ
کی
یہ معجزات جو فکر و عمل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے عاشقِ صادق وہ اِک حسیںؐ کا
ہے
کہ اُس کی نثر میں موسم غزل کے دیکھتے
ہیں
سنا ہے زندوں میں اونچا ہے سب سے قامت
میں
کیوں پست قد اُسے ناحق اچھل کے دیکھتے
ہیں
سنا ہے جب وہ ”منالی ” کی سیر کو
جائے
تو کوہسار کے چشمے اُبل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے غلام اس کے عہدِ الفت
میں
کرشمے آج بھی حسنِ ازل کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب بھی وہ جھکتے ہیں اپنے رب
کے حضور
پکارتے ہی نہیں اُس کو بلکہ دیکھتے
ہیں
ق
سنا ہے عقل کے اندھوں کا کچھ علاج نہیں
مگر سنا ہے کہ اب ہلکے ہلکے دیکھتے
ہیں
سنا ہے آج بھی ارضِ وطن کے فتویٰ فروش
ضمیرِ صوت و صدا کو کچل کے دیکھتے ہیں
نہ جانے کیوں انھیں منزل نظر نہیں آتی
وہ راستہ کبھی رہبر بدل کے دیکھتے ہیں
گلہ ہے کس لیے ملّائے شہر کو مضطر!ؔ
وفا کے پیڑ اگر پھول پھل کے دیکھتے
ہیں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں