366۔ اپنے سائے سے ڈر رہی ہے رات

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ534

366۔ اپنے
سائے سے ڈر رہی ہے رات

اپنے
سائے سے ڈر رہی ہے رات
جی
رہی ہے نہ مر رہی ہے رات
صبحِ
نو سے ملی ہے پہلی بار
جانے
اب تک کدھر رہی ہے رات
اپنی
تصویر دیکھنے کے لیے
پانیوں
میں اُتر رہی ہے رات
جانتی
ہے پتے ستاروں کے
چاند
کی ہمسفر رہی ہے رات
پھر
کسی صبح کے تصور میں
لمحہ
لمحہ گزر رہی ہے رات
یہ
جو سورج چڑھا ہے آدھی رات
اس
کا انکار کر رہی ہے رات
پھر
ازل اور ابد کے سنگم سے
دبے
پاؤں گزر رہی ہے رات
آ
گئی ہے اُتر کے دھرتی پر
تنِ
تنہا ہے، ڈر رہی ہے رات
تم
بھی مضطرؔ! اسے بغور سنو
یہ
جو اعلان کر رہی ہے رات
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں