
3۔ قصیدہ ۔ در شانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ29۔33
دراز دستِ دعا مرا صفحہ29۔33
3۔ قصیدہ ۔ در شانِ حضرت مسیح
موعود علیہ السلام
اے مسیحائے زمن عصرِ رواں کے چارہ گر
مہدیء آخر زماں روحانیت کے راہبر
اے جری اللہ ، بروز انبیاء ، عالی گُہر
ہوں ہزاروں رحمتیں تیری مقدس ذات پر
تجھ کو پایا تو خدا کی معرفت حاصل ہوئی
تجھ کو دیکھا تو عجب شانِ خدا آئی نظر
تو نے سمجھایا کہ کیا ہے رُوحِ دینِ
مصطفےٰؐ
مصطفےٰؐ
تو نے بتلایا کہ کیا ہے عظمتِ خیرالبشرؐ
تو نے فرمایا کہ ”ہر نیکی کی جڑ ہے
اتقاء”
اتقاء”
”رنگِ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں
ہے خوب تر”
ہے خوب تر”
”وہ خزائن جو ہزاروں سال سے
مدفون تھے”
مدفون تھے”
تو نے پھر ظاہر کئے دنیا پہ سب لعل
و گہر
و گہر
دیکھ سکتا ہی نہ تھا تو ضعفِ دین مصطفیؐ
فکر میں اس کی رہے کٹتے ترے شام و سحر
تیرے مولا کا بھی تھا تجھ سے محبت کا
سلوک
سلوک
رحمتیں ہی رحمتیں تھیں تیرے ہر اک گام
پر
پر
آسماں تیرے لئے اس نے بنایا اک گواہ
تیری ہی خاطر تھے گہنائے گئے شمس و
قمر
قمر
زلزلوں نے بھی صداقت کی تری تصدیق کی
ایک عالم ہو گیا تیرے لئے زیر و زبر
آئی یہ ”صوت السّماء جاء المسیح جاء
المسیح”
المسیح”
اور زمیں بھی دے رہی ہے تیرے آنے کی
خبر
خبر
اس تواتر سے ہوا انوار کا تجھ پہ نزول
جگمگا اُٹھے ہیں جن سے جان و دل کے
بام و در
بام و در
تیرے مولیٰ نے ترے دل کو عجب بخشا سرور
دے کے تیرے گھر میں آنے والی خوشیوں
کی خبر
کی خبر
دی تجھے ربّ الورٰی نے وہ نویدِ جانفزا
سینکڑوں برسوں سے یہ دنیا تھی جس کی
منتظر
منتظر
تجھ کو قدرت نے دیا خود ”اپنی رحمت
کا نشاں”
کا نشاں”
صاحب عزو وقار و شوکت و فتح و ظفر
حسن و احساں میں وہ تیرا عکس تیری ہی
نظیر
نظیر
ذریّت تیری ، دعا تیری ، ترا لختِ جگر
اور پھر وہ بھی جسے نورِ بصیرت تھا
ملا
ملا
تیرے آنگن میں ہی چمکا ہے وہ ”نبیوں
کا قمر”
کا قمر”
”بادشاہ آیا” کے جو الہام کی
تفسیر تھا
تفسیر تھا
اک فقیرانہ صفت آیا بہ اندازِ دگر
تین کو پھر چار کرنے کی بشارت بھی ملی
کھینچ لایا تیرے سلطاں کو ترا سوزِ
جگر
جگر
اک طرف بنتِ مبارک ، اک طرف دختِ کرام
تیرے گلشن میں لگے ہیں کس قدر شیریں
ثمر
ثمر
مُردہ روحوں میں نئی اک روح تو نے ڈال
دی
دی
یہ ترا احسان کیا کم ہے ہماری ذات پر
پھر زمیں کی آسمانوں پر پذیرائی ہوئی
پستیوں کو رفعتیں حاصل ہوئیں بارِ دگر
جو بڑھا تیرے مٹانے کو وہ مٹ کر رہ
گیا
گیا
فیصلہ اُس کی ہلاکت کا ہوا افلاک پر
اُس طرف اِیذاء رسانی کی مسلسل کوششیں
اور عجب صبرو تحّمل کے تھے نظّارے اِدھر
نیک روحیں آ رہی ہیں اِس طرف پروانہ
وار
وار
لاکھ چلاّتے رہیں اعدائے بدگو بدنظر
کر رہے ہیں آج وہ نیکی بدی کے فیصلے
خود جنہیں مطلق نہیں ہے امتیاز خیرو
شر
شر
گر نہیں پہچانتے تجھ کو تو کیا تیرا
قصور
قصور
کام کرتی ہے بھلا کب کور چشموں کی نظر
اہلِ بینش پر کھلے ہیں حسن کے جلوے
ترے
ترے
ہے مگر محروم تیری دید سے ہر بے بصر
بدزبانی ، گالیاں ، ایذا رسانی ، اِفترا
ایسی باتیں اور محمدؐ مصطفی کے نام
پر؟
پر؟
کوئی سمجھاتا عدو کو اُس کی طاقت کو
بھی دیکھ
بھی دیکھ
اپنی طاقت کا ہی اے غافل تو اندازہ
نہ کر
نہ کر
ہے دعا ہم کو بھی توفیق عبادت مل سکے
ہاتھ اُٹھے ہوں دعا کو سجدہ گاہوں میں
ہوں سَر
ہوں سَر
کاش وارث میں بھی ٹھہروں اُن دعاؤں
کی ہمیش
کی ہمیش
آپ نے اولاد کے حق میں جو کی ہیں عمر
بھر
بھر
میرے مولیٰ خادمانِ رجلِ فارس ، ہم
بھی ہیں
بھی ہیں
نور سے تیرے صدا روشن رہیں اپنے بھی
گھر
گھر
قدرتِ ثانی کے نظّارے سدا کرتے رہیں
کجروی پیدا نہ ہو چھوٹے نہ سیدھی رہگزر
نعمتیں دنیا و دیں کی فیض سے ان کے
ملیں
ملیں
ہوں ہزاروں رحمتیں یارب شہہِ لَولاک
پر
پر
حیف جز اشکِ ندامت کچھ نہیں ہے میرے
پاس
پاس
”میرے آقا پیش ہیں یہ حاصلِ شام و
سحر”
سحر”
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ