
15۔ رخصت ہؤا
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ77۔80
دراز دستِ دعا مرا صفحہ77۔80
15۔
رخصت ہؤا
آنکھ جس کی یاد میں ہے خونچکاں رخصت
ہؤا
ہؤا
جس کے غم میں دل سے اٹھتا ہے دھواں
رخصت ہؤا
رخصت ہؤا
نافلۃ لّک کی تابندہ بشارت کا ثبوت
وہ مسیحِ پاک کا زندہ نشاں رخصت ہؤا
مسجدِ اسپین اُس کی منتظر ہی رہ گئی
ناصرِ دینِ خُدا سُوئے جناں رخصت ہؤا
کچھ نئی راہوں کا بھی ہم کو پتہ بتلا
گیا
گیا
ثبت کر کے اپنے قدموں کے نشاں رخصت
ہؤا
ہؤا
حوصلہ ایسا کہ انساں دیکھ کر حیران
ہو
ہو
صبرو ہمت کا وہ اک کوہِ گراں رخصت ہؤا
جس کے آگے چُپ ہوئے سب عالمانِ ذی وقار
اہلِ علم و اہلِ دانش، نکتہ داں رخصت
ہؤا
ہؤا
لا اِلٰہ کا وِرد برلب، دعوتِ حق بَرزباں
جس کے ہر فقرے میں تھا رنگِ اذاں رخصت
ہؤا
ہؤا
حسن، احساں، پیار، شفقت یاد کیا کیا
آئیں گے
آئیں گے
وہ شہِ خوباں، نگارِ دلبراں رخصت ہؤا
جس کا چہرہ دیکھ کر تسکین پاجاتے تھے
دل
دل
زندہ دل، روشن جبیں، شیریں دہاں رخصت
ہؤا
ہؤا
جس کو ملتے ہی مہک اٹھتے امیدوں کے
چمن!
چمن!
وہ توکّل اور غِنا کا ترجماں رخصت ہؤا
سب کی تکلیفوں کو سُن کے حوصلہ دیتا
رہا
رہا
مونس و غمخوار سب کا راز داں رخصت ہؤا
کرب کے دریا میں غوطہ زن رہا اُس کا
وجود
وجود
غم مگر جس کا نہ ہوپایا عیاں رخصت ہؤا
زخم جو دل پر لگے وہ ہنستے ہنستے سہہ
گیا
گیا
صاحبِ خندہ جبیں، خندہ لباں رخصت ہؤا
سنگ و ابریشم کی یکجائی سے تھا اُس
کا خمیر
کا خمیر
نرم فطرت، نرم خُو، پہ سخت جاں رخصت
ہؤا
ہؤا
کر گیا تحریر ہر دل پہ وہ کچھ انمٹ
نقوش
نقوش
دے کے اہلِ عشق کو سوزِ تپاں رخصت ہؤا
اپنے رب کی ہر رضا پر جو سدا راضی رہا
خوش دلی سے ہمرکابِ قُدسیاں رخصت ہؤا
آخرِ دم تک بھی چہرے پہ رہا اُس کے
سکوں
سکوں
وہ بہ ایں اندازِ تسکین و اماں رخصت
ہوا
ہوا
مسکرانے کی سَدا، تلقین جو کرتا رہا
چھوڑکے آنکھوں میں اب سیلِ رواں رخصت
ہؤا
ہؤا
گِرد جس کے کھینچ رکھا تھا حفاظت کا
حصار
حصار
چھوڑ کے کیسے اُسے تنہا یہاں رخصت ہؤا
یہ ہماری ہے تو پھر جو اُس کی حالت
ہو سو ہو
ہو سو ہو
اُس کی نظروں میں تو گویا کُل جہاں
رخصت ہؤا
رخصت ہؤا
شکرِ لِلّٰہ کہ کڑے لمحوں کی سختی مِٹ
گئی
گئی
فضل ربی سے وہ ہنگامِ گراں رخصت ہؤا
پھر خُداکے فضل سے اک سائباں حاصل ہؤا
لوگ تو سمجھے تھے سر سے سائباں رخصت
ہؤا
ہؤا
یاد پھر رہ رہ کے اُس کی دل کو تڑپانے
لگی
لگی
وہ مرا محبُوب آقا اب کہاں؟ رخصت ہؤا
اُس کے جانے سے پرانے زخم بھی رِسنے
لگے
لگے
کر کے تازہ پھر سے یادِ رفتگاں رخصت
ہؤا
ہؤا
ہے خوشی اِس کارواں کو رہنما پھر مل
گیا
گیا
غم مگر ہے وہ امیرِ کارواں رخصت ہؤا
”یا الٰہی کیا کروں دل حوصلہ
پاتا نہیں
پاتا نہیں
جس کو نظریں ڈھونڈتی ہیں وہ نظر آتا
نہیں”
نہیں”
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ