19۔ ناصر دینِ متیں یاد آگئے

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ91۔92

19۔ ناصر دینِ متیں یاد آگئے

اے خدا، اے کردگار و کارساز
اے مِرے پیارے مرے بندہ نواز
تو کہ ناواقف نہیں احوال سے
تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے کوئی راز
بے عمل ہوں میں، مرا دامن تہی
بس محبت ہی تری میری نماز
کر بھی دے میرے گناہوں کو معاف
تُو نے فرمایا درِ توبہ ہے باز
کر قبول اے مالک ارض و سماء
التجائے بندۂ عجز و نیاز
گر قبول افتد زہے عزّو شرف
میری آنکھوں کی نمی، دل کا گداز
خادمانِ رجل فارس ہم بھی ہیں
کم ہے جتنا بھی کریں قسمت پہ ناز
مسجدِ اسپین میں اسلام کا
باب اک کھولا گیا تاریخ ساز
جس تڑپ سے یہ بِنا رکھی گئی
وہ تڑپ ہر قلب کو کر دے گداز
یہ زمیں پھر وہ نظارے دیکھ لے
آگریں سجدوں میں محمود و ایاز
لا الٰہ کی ضرب ہے تثلیث پر
یہ بشارت ہے پئے قومِ حجاز
ناصرِ دینِ متیں یاد آگئے
دیکھ کر اس کے مناروں کا فراز
چیز تیری تھی سو واپس لے گیا
میرے شکووں کا نہیں کوئی جواز
دے خلافت کو بقائے دائمی
رحمتوں سے اپنے بندوں کو نواز
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں