21۔ اے قادرِ مطلق یہ تو بتا پھر لوٹ کے کب تک آئیں گے

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ95۔97

21۔ اے قادرِ مطلق یہ تو بتا پھر لوٹ کے
کب تک آئیں گے

عرفان کی بارش ہوتی تھی جب روز ہمارے
ربوہ میں
اے کاش کہ جلدی لوٹ آئیں وہ دن وہ نظارے
ربوہ میں
جب علم کی محفل جمتی تھی عرفان کی باتیں
ہوتی تھیں
دن یاد بہت وہ آتے ہیں جو ساتھ گزارے
ربوہ میں
اے بے بصرو! کیا تم کو خبر اُس لذّت
کی جب ہوتے تھے
عشاق کی محفل میں اُن کی چِتوَن کے
اشارے ربوہ میں
گرداب سے نکلو ہم تم کو ساحل سے صدائیں
دیتے ہیں
رُخ اپنے سفینوں کے موڑو پاؤ گے کنارے
ربوہ میں
اے تخت نشینو! ہم تو اُنہی آنکھوں کا
اشارہ دیکھتے ہیں
خوش فہم نہ ہو کہ چلتے ہیں فرمان تمہارے
ربوہ میں
جو آگ لگائی ہے تم نے وہ تم کو ہی جھلسائے
گی
اے صاحبِ شر ! کر ہوش ذرا نہ پھینک
شرارے ربوہ میں
مجبور سہی، لاچارسہی ہے کرب و بَلا
کا دَور مگر
!
پُر عزم بھی ہیں با حوصلہ بھی رہتے
ہیں جو سارے ربوہ میں
کچھ جان کی بازی ہار گئے، پر لاج وفاؤں
کی رکھ لی
خوں رنگ لبادوں میں آئے اللہ کے پیارے
ربوہ میں
تسکین سماعت پاتی ہے، ذہنوں کو جِلا
بھی ملتی ہے
پر دید کی پیاس کا کیا کیجئے، بھڑکی
ہے جو سارے ربوہ میں
کب ساقی بزم میں آئے گا، کب جام لُنڈھائے
جائیں گے
دو قطروں سے کب ہوتے ہیں رندوں کے گزارے
ربوہ میں
جب تک یہ سانس کا رشتہ ہے بندھن بھی
آس کا قائم ہے
الطاف کے خوگر بیٹھے ہیں رحمت کے سہارے
ربوہ میں
پھر نغمۂ بلبل گونجے گا پھر پھول چمن
میں مہکیں گے
پھر لَوٹ بہاریں آئیں گی سَو رُوپ نکھارے
ربوہ میں
پھر تارے تابندہ ہوں گے پھر چاند اُجالا
پھیلے گا
ہر سمت نظر آئیں گے وہی پھر نور کے
دھارے ربوہ میں
پھر جلوے بزم سجائیں گے، پھر دید کی
پیاس بجھائیں گے
پھر دیکھنے والے دیکھیں گے گلرنگ نظارے
ربوہ میں
جب اِذن الٰہی ہو گا پھر اک شان سے
واپس آئیں گے
آغوشِ امامت کے پالے مہدی کے دُلارے
ربوہ میں
اے قادرِ مطلق یہ تو بتا پھر لَوٹ کے
کب تک آئیں گے
وہ دن کہ اذانوں سے گونجا کرتے تھے
منارے ربوہ میں
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں