
53۔ ہے عبادتوں کی تو بات کیا کہ یہ اِک نصاب کی بات ہَے
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ185۔187
دراز دستِ دعا مرا صفحہ185۔187
53۔ ہے عبادتوں کی تو بات کیا کہ یہ اِک
نصاب کی بات ہَے
ہے عبادتوں کی تو بات کیا کہ یہ اِک
نصاب کی بات ہَے
نصاب کی بات ہَے
ہو شریک دَردِ جہان یہ بھی بڑے ثواب
کی بات ہَے
کی بات ہَے
تری محفلوں میں تو واعظا کوئی دل سکون
نہ پا سکا
نہ پا سکا
کبھی تذکرہ ہے عذاب کا تو کبھی عتاب
کی بات ہَے
کی بات ہَے
تجھے روشنی کی طلب ہے تو مرا شہر آ
کے بھی دیکھ لے
کے بھی دیکھ لے
کہیں چرچے ماہِ مبین کے کہیں آفتاب
کی بات ہَے
کی بات ہَے
کبھی منزلوں کی تلاش ہے کبھی منزلوںپہ
قیام ہَے
قیام ہَے
وہ مرے شعور کی کاوشیں ہیں یہ میرے
خواب کی بات ہے
خواب کی بات ہے
ہے دراز دستِ دُعا مِرا جو ملے اِسے
وہ تری عطا
وہ تری عطا
یہ مِرے سوال کا ظرف ہے وہ تِرے جواب
کی بات ہے
کی بات ہے
تِرے ہوتے درگِہ غیر سے مَیں اُمید
حُسنِ عطا کروں
حُسنِ عطا کروں
مِرے ساقیا ! یہ مرے لئے تو بڑے حجاب
کی بات ہے
کی بات ہے
یہ وہ مَے ہے پی کے جسے ملے مجھے آگہی
بھی شعور بھی
بھی شعور بھی
جوتِری نظر سے چھلک رہی ہے یہ اُس شراب
کی بات ہے
کی بات ہے
تو ہو سامنے بھی اگر کبھی تو نگاہِ
شوق جُھکی رہے
شوق جُھکی رہے
تِری دید کی نہ مجال ہے نہ یہ میری
تاب کی بات ہَے
تاب کی بات ہَے
مجھے کیا پتہ مِری کیا ادا تِری بارگہ
میں قبول ہو
میں قبول ہو
کہ مِرے عمل کی پرکھ تو بس تِرے احتساب
کی بات ہے
کی بات ہے
یہ کتابِ ذات ہے دوستو یونہی سرسری
نہ اسے پڑھو
نہ اسے پڑھو
نہ سرِ ورق کی یہ دلکشی نہ یہ انتساب
کی بات ہے
کی بات ہے
کوئی باب اس کا لہو لہو، کوئی باب اس
کا حنا حنا
کا حنا حنا
وہ جو خونِ دل سے رقم ہوئی ہے یہ اُس
کتاب کی بات ہے
کتاب کی بات ہے
ہیں اُسی کے خامے کی سرخیاں کہ ورق
ورق پہ بکھر گئیں
ورق پہ بکھر گئیں
نہیں جس کا کوئی جواب یہ اُسی لاجواب
کی بات ہے
کی بات ہے
انہی پردہ ہائے وجود میں وہ تجلیات
نہاں ہوئیں
نہاں ہوئیں
رُخِ یار سے جو نہ اُٹھ سکا یہ اسی
نقاب کی بات ہے
نقاب کی بات ہے
جو کلی ہو دل کی کھلی ہوئی تو نظر نظر
میں چمن کِھلیں
میں چمن کِھلیں
نہ بہار رُت کا ہے ذکر یاں نہ گُل و
گلاب کی بات ہے
گلاب کی بات ہے
کرو سوز پیدا کچھ اس طرح کہ دلوں میں
آگ دَہک اُٹھے
آگ دَہک اُٹھے
کہ دعاؤں کے تو معاملے فقط اضطراب کی
بات ہے
بات ہے
جو نگاہ جُھک بھی گئی تو کیا ، جو جُھکا
یہ سَر بھی تو فائدہ؟
یہ سَر بھی تو فائدہ؟
کہ ندامتوں کی حکائیتیں دلِ آب آب کی
بات ہے
بات ہے
جو وفا کا ذکر ہوا کبھی تو نگاہ آپ
کی جُھک گئی
کی جُھک گئی
یہ گمان آپ کو کیوں ہوا کہ یہ آنجناب
کی بات ہے
کی بات ہے
میں یقیں دلاؤں کِسے کِسے کوئی بات
ایسی ہوئی نہیں
ایسی ہوئی نہیں
کہ ہر اک مقام پہ ہر جگہ تیرے اجتناب
کی بات ہے
کی بات ہے
کوئی عمر ہو کوئی دَور ہو پہ دلوں میں
جذبے جواں رہیں
جذبے جواں رہیں
مرا دل نہیں اسے مانتا کہ یہ بس شباب
کی بات ہے
کی بات ہے
نہ تو ہست ہے نہ عدم مرا کروں مان خود
پہ میں کس طرح
پہ میں کس طرح
کہ مرے وجود کی بات تو یہی اک حُباب
کی بات ہے
کی بات ہے
کبھی بات حُسنِ طلب کی ہے کبھی بات
حُسنِ عطا کی ہے
حُسنِ عطا کی ہے
کہیں قسمتوں کے ہیں فیصلے کہیں انتخاب
کی بات ہے
کی بات ہے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ