
65۔ دنیا سرائے ہے یہاں رہوے ہے جو بھی آئے کر
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ214۔216
دراز دستِ دعا مرا صفحہ214۔216
65۔ دنیا سرائے ہے یہاں رہوے ہے جو بھی
آئے کر
دنیا سرائے ہے یہاں رہوے ہے جو بھی
آئے کر
آئے کر
آخر کو اُس جانا پڑے چارہ نہیں بن جائے
کر
کر
کس سوچ میں ہے تو میاں کر لے جو کرنا
ہے یہاں
ہے یہاں
چڑیاں جو چُگ لیں کھیتیاں تو کا ملے
پچھتائے کر
پچھتائے کر
چمناں پہ جو ڈالی نگہ ہر گل دیا فہمِ
فنا
فنا
ڈالی پہ جو پھوٹا، کِھلا اور رہ گیا
مرجھائے کر
مرجھائے کر
ہر پھول کا دکھ ہو بڑا پر اس کا تو
ہووے سوا
ہووے سوا
جو وقت سے پہلے ہی یاں رہ جائے ہے کملائے
کر
کر
وہ جو کرے اچھا کرے کیا خوف کیسے وسوسے
ہونا ہے جو سو ہو رہے پھر ہوئے کیا
گھبرائے کر
گھبرائے کر
اُس کا عجب دستور ہے اب پاس ہے اب دور
ہے
ہے
پردے میں جا مستور ہے جلوہ ذرا دکھلائے
کر
کر
اُس سے ملاقاتاں ہوئیں نہ دید نہ باتاں
ہوئیں
ہوئیں
پر کچھ تو ڈھارس ہو گئی اُس کی گلی
میں جائے کر
میں جائے کر
اُس کی عنایت ہے بڑی مجھ پر سدا رحمت
کری
کری
خطرہ جو آیا ٹل گیا سر پر مرے منڈلائے
کر
کر
چارہ گراں کرتے بھی کیا؟ میرا مسیحا
آ گیا
آ گیا
تسکیں کا پھاہا رکھ دیا زخماں مرے سہلائے
کر
کر
سمجھا تھا بزمِ یار میں اُس بن نہ ہوئے
گا کوئی
گا کوئی
دیکھا مجھے جو غیر نے تو رہ گیا بَل
کھائے کر
کھائے کر
اوروں کا ہر عیب و ہنر ہر دم رہا ِپیش
نظر
نظر
شیشہ جو دیکھا غور کر نظریں جھکیں شرمائے
کر
کر
یہ سوچ یہ فکر و نظر ان پہ سدا قابو
رہے
رہے
ہے نفس بھی سرکش بڑا راکھو اسے سمجھائے
کر
کر
زخموں پہ مرہم لگ گیا سب درد دل کا
بھگ گیا
بھگ گیا
دلدار نے دیکھا مجھے جب بھی ذرا مسکائے
کر
کر
خسرو میاں کا قول یہ جی کو مرے خوش
آ گیا
آ گیا
”تجھ دوستی بسیار ہے اک شب ملو
تو آئے کر”
تو آئے کر”
کیا ہے رقیباں جو مری راہوں میں کانٹے
بو دیئے
بو دیئے
میری جزا تو مل گئی اُس یار کا کہلائے
کر
کر
چھوٹا سا یہ فتنہ مجھے پل کو بھی دم
لینے نہ دے
لینے نہ دے
پہلو سے نکلا جائے ہے زِچ آ رہی بہلائے
کر
کر
جگ کی ملونی سے ترا دل کس قدر میلا
ہوا
ہوا
آنکھوں کے پانی سے اسے ٹک صاف کر نہلائے
کر
کر
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ