64۔ اُس سے شکوہ کون کرے کہ کیوں تڑپائے ساری رات

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ
211۔213

64۔ اُس
سے شکوہ کون کرے کہ کیوں تڑپائے ساری رات

ان کو شکوہ ہے کہ ہجر میں
کیوں تڑپایا ساری رات
جن کی خاطر رات لُٹا دی چین نہ
پایا ساری رات”
( یہ شعر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب
خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا ہے)
اُس سے شکوہ کون کرے کہ کیوں تڑپائے
ساری رات
جو پیتم خود ہجر کے دُکھ سے چین نہ
پائے ساری رات
جگ والو! کیا چاہت کا یہ رُوپ بھی تم
نے دیکھا ہے
پریمی سُکھ سے سوئیں پی کو نیند نہ
آئے ساری رات
مُجھ مورکھ کی اکھیئن میں
تو پانی کی اک بُوند نہیں
مَن موہن نے میری خاطر نِیر بہائے ساری
رات
نِربھاگی جو ہیں وہ سب تو لمبی تانے
سوتے ہیں
بَھاگوں والا رو رو اِن کے بھاگ جگائے
ساری رات
سُورج کس کے پریم میں جلتا مَنوا لے
کر گُھومے ہے
کس کی کھوج میں چاندگگن کے چکّر کھائے
ساری رات
لاج کی ماری سوچ رہی ہوں کیسے اُس کی
اَور تکوں
ساجن جی کی سیوا کی نہ ناز اُٹھائے
ساری رات
روز ارادے باندھے ، سوچا ، رات تو اُس
کے نام کریں
بات یہ دن بھر یاد رہے پر یاد نہ آئے
ساری رات
گھر ویران پڑے ہوں تو آسیب بسیرا کرتے
ہیں
دِل کی بستی پرمنڈلائے دُکھ کے سائے
ساری رات
آدھی رات کی زاری اچھی جِیون بَھر کے
رونے سے
بے کَل مَن اب آدھی رات کے قرض چکائے
ساری رات
ذہن ہے بوجھل ، تن دُکھتا ہے ، مَن
بھی جلتا انگارہ
ساری رات ہی سوئے پھر بھی سو نہ پائے
ساری رات
ایک ذرا سی جان نے میری کیا کیا جھنجھٹ
پالے ہیں
دن بھر کے سب جھگڑے سوچوں میں نپٹائے
ساری رات
یُوں بھی ہو کہ ِبپتا جو بھی ِبیتے
َمن پہ بوجھ نہ ہو
اور کبھی بے بات کے میرا جی گھبرائے
ساری رات
بُھولی باتیں، بِسرے قِصّے ، سُندر
مُکھڑے ، پیارے لوگ
یادوں کی بارات نے کیا کیا رنگ جمائے
ساری رات
آس نراس کے سنگھم پر یہ جیون کب تک
بیتے گا
دن کو خود ہی توڑے جو سَپنے دکھلائے
ساری رات
نظریں چھالا چھالا ہوگئیں ، جَلتی دُھوپ
میں تکنے سے
ان پیالوں میں آشاؤں کے دِیپ جلائے
ساری رات
بِن مانگے جو دان کرے کیا مانگے سے
نہ دیوے گا ؟
بیٹھ رہو اُس دَر پر جھولی کو پھیلائے
ساری رات
گیت کوی کے سُن کے سَر تو دُھنتے ہو
پر سوچا بھی ؟
اُس نے کتنی پِیڑ سہی ، کیا کشٹ اُٹھائے
ساری رات
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں